• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے ۔ یہ صرف ہمارا نہیں دنیا کے ہر اس انسان کا عقیدہ ہے جس کا مذہب انسانیت ہے ۔ دنیا میں ہونے والے قتل کی وارداتیں اور قاتلوں کا طریقہ واردات مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان کے جرم کی سنگینی اور ان کی سزا کے لئے الگ الگ معیار یا تاویلات پیش نہیں کی جاسکتیں ۔تمام انسانی جانیں یکساں طور پر قیمتی ہیں خواہ وہ بوسٹن میں بموں کے دھماکوں میں ہلاک ہونے والے ہوں یا عراق و شام میں فرقہ ورانہ فسادات میں مارے جانے والے ،بنگلہ دیش اور بمبئی کی بلند قامت عمارات کے ملبے تلے دب کے ہلاک ہونے والے مزد ور ہوں یا کراچی کی بلدیہ ٹاوٴن کی فیکٹری میں جل کر راکھ ہو جا نے والے محنت کش ، افغانستان میں ڈرون حملوں سے ہلاک کئے جا نے والے بے گناہ شہری اور بچے ہوں یا برما کے ستم زدہ مسلمان۔
ہم اپنے آس پا س کے ان خونی منظروں اور وارداتوں پر نظر ڈالیں تو ان واقعات کے پیچھے کہیں کھلی دہشت گردی ،انتہا پسندی اور مذہبی منافرت ہے تو کہیں بے حسی ،لالچ ،خودغرضی اور حرص و ہوس کی خاطر معصوم جانوں سے کھیلنے کی مجرمانہ غفلت ، یہ سارے واقعات قابل مذمت ہیں اور ان کے مرتکب احتساب اور سزا کی گرفت میں لائے جانے کے لائق ہیں۔ لیکن کیا ان سارے واقعات کو یکساں طور پر اہمیت دی جاتی ہے اور کیا ان کا ارتکاب کرنے والیکسی قانونی ا احتسابی شکنجے میں جکڑے جاتے ہیں اور قرار واقعی سزا پاتے ہیں ۔ احتساب اور سزا پانا تو دور کی بات ہے بعض واقعات کا تسلسل اور شد ت بھی عالمی ضمیر کو نہیں جھنجوڑتی ، خاموش فضاوٴں میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی یہاں تک کہ دنیا کے زیادہ تر میڈیا بھی ان پر خاموشی اختیار کیئے رہتے ہیں ایسے ہی المیہ واقعات کا ایک سلسلہ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کا قتل عام ہے ۔اس معاملہ پر قبرستان جیسی خامشی کیوں چھائی ہوئی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی تنظیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال مئی اور اکتوبر میں ایک لاکھ پچیس ہزار روہنگیا مسلم اقلیت کو تشدد کے ذریعہ بیگھر اور ملک بدر کیا جا چکا ہے ۔ خود اقوام متحدہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا شمار دنیا کی سب سے بڑی ستم زدہ اقلیتوں میں ہوتا ہے جو کہ اس وقت بدترین مصائب سے گزر رہی ہے لیکن اسکے باوجود نہ تو میڈیا کی آواز تیز ہوتی ہے اور نہ ہی عالمی رد عمل میں کوئی شدت نظر آتی ہے ۔
1941ء سے آج تک مختلف ادوار میں برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ برما میں آٹھ لاکھ مسلمان آبادی ہے جن کی نہ جان محفوظ ہے نہ عزت نہ مال ۔اب تک ہزاروں مسلمانوں کو بدھ مت کی متشدد تنظیم " ماگ " موت کی گھاٹ اتار چکی ہے ۔راکھنی کے علاقے میں 70 فیصد مسلمان آباد ہیں جہاں نہ تو انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے نہ ہی تعلیم حاصل کرنے کی یھاں تک کہ ایک مسلمان لڑکی 25 سال سے پہلے اور لڑکا 30 سال کی عمر سے پہلے قانونی طور پر شادی بھی نہیں کر سکتے گویا یہ سب مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے برما کی انتہا پسند متعصبانہ رویہ رکھنے والی حکومت کی سوچی سمجھی سازش ہے ۔حکومت کی طرف سے کبھی بھی ان مسلمانوں کو پاسپورٹ کے اجرا یا برمی شہریت کے حصول کا حق نہیں دیا گیا ۔ برما یا میانمار حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے برما میں داخل ہوئے ہیں اور وہ برما کے مقامی اور ریاستی باشندے نہیں ہیں ۔ برما کی ملٹری اور بدھ مت کمیونٹی کا بھی یہ ہی خیا ل ہے کہ کہ روہنگیا چٹاگانگ کے مسلمان بنگالیوں کی نسل ہے جو 1863ء میں وہاں سے نقل مکا نی کر کے برما میں داخل ہوئے تھے اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی تقریبا ایک سو پچاس سال سے یہ مسلمان برما میں ہی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن برما کے مسلمانوں کی یہ بدنصیب آبا دی 70 سال سے زائد عرصے سے مختلف حکومتوں کے ادوار میں کبھی جاپانیوں اور کبھی برطانوی اور برمی حکومتوں کے زیرعتاب رہی ہے جس کے باعث ان میں سے بہت سے مسلمان بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کی طرف نقل مکانی کرتے رہے لیکن پھر بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ نے بھی برما کے مسلمان مہاجرین کی آمد پر پاپندی عا ئد کر دی ۔ گزشتہ سال تھائی لینڈ کے ساحلی علاقے کے قریب تھائی نیوی نے ایک کشتی روکی جس میں وہ روہنگیا مسلمان سوار تھے جو برما سے بھاگ کر پناہ کی تلاش میں تھائی لینڈ میں داخل ہونا چاہتے تھے ۔تھائی لینڈ کی نیوی نے ان کی کشتی کا انجن نکال کر انہیں سمندر کی موجوں کے حوالے کر دیا - دو ہفتے تک وہ سب اس کشتی پر بنا خوراک اور پانی کے نیم مردہ حالت میں پڑے رہے کچھ نے پیا س کی شد ت سے تنگ آکر سمندر کا پانی پی لیا جس سے بیمار ہو کر ان کی موت واقع ہوئی کچھ نے سمندر میں چھلانگ لگادی ۔ موجوں کے تھپیڑوں پربہتی یہ کشتی بھا رت کے ایک آ ئی لینڈ آندامان کی طرف جا نکلی جہاں انڈین کوسٹ گارڈ نے بچے ہوئے چند نیم جان لوگوں کی جان بچائی ۔گزشتہ سال جون میں برما کے میڈیا کے مطابق 78سے زائد اموات بدھسٹ راکھنی اور مسلمان روہنگیا کے بیچ تنازعے اور مذہبی تشدد کے نتیجے میں ہوچکی ہیں ۔الجزیرہ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق برما کی حکومت کا یہ بیان صرف ایک علاقے کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتا ہے اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان برما میں مسلسل تشدد اور نسلی قتل عام کی صورت حال سے گزر رہے ہیں ۔ الجزیرہ نیوز رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں بچے بھی زندہ جلاتے گئے دو بڑی اجتماعی قبریں اس با ت کا ثبوت تھیں اور35 افراد کی اجتماعی قبروں میں 25بچوں کی لاشیں بھی شامل تھیں اور گزشتہ جون میں صرف پا نچ دن کے اندر 200سے زائد لوگ قتل کے گئے ۔ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جن کو برما کی آرمی اور بارڈر سیکورٹی فورس نے مارا تھا ۔ایک عینی شاہد نے کئی سو لاشوں کو سیکورٹی فورسز کو ٹرک میں بھر کے لے جاتے اور دفن کرتے دیکھا ۔برما کی سیکورٹی فورسز نے گیسولین کی بوتلیں مسلمانوں کے گھروں میں پھینک کر آگ لگائی ۔مسلمانوں کے مذہبی رہنماوٴں کو مسجد سے نکال کر انہیں قتل کیا گیا ۔بچوں کو جلتی ہوئی آگ میں پھینک کر زندہ جلایا گیا ۔عورتوں کا اجتماعی ریپ کیا گیا لیکن دنیا بھر کا میڈیا خاموش رہا نیویارک ٹائمز اور گارڈین نے بھی سرسری طور پر ان واقعات کا ذکر کیا یھاں تک کہ نوبل پیس پرائز حاصل کرنے والی برما کی لیڈر ڈاکٹر سوچی نے بھی انتہا پسند بدھسٹ کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی کھل کر مذ مت نہیں کی ۔ آج تک یہ قتل عام رکتا نظر نہیں آرہا ۔متاثرہ علاقے راکھنی میں اقوام متحدہ یا امدادی ایجنسیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔اسی طرح میڈیا تنظیموں پر بھی اس علاقے میں داخلے پر پابندی ہے کسی بھی طرح کی غذائی امداد یا سامان بھی براہ راست ان تک نہیں پہچایا جا سکتا ۔ اس دل ہلادینے والی صورت حال میں مسلم دنیا بھی خاموش ہے -کم از کم اسلامی ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر ایک قرار داد تو اقوام متحدہ میں برما کی ملیٹری اور حکومت پر عالمی دباوٴ ڈالنے کے لیے پیش کی جاسکتی تھی لیکن قبرستان کی سی خاموشی ہے جہاں مسلم امہ ،مسلم اخوت و اتحاد کی لاش پڑی ہوئی ہے برمی روہنگیا مسلمانوں کی کہانی تو دیوار پر لکھی جا رہی ہے کیونکہ نہ ان کے پاس آئل ہے نہ پیسہ نہ ہی اپنا کوئی وطن اور نہ ہی کوئی ایسے مانٹری بینیفٹس جو مسلم حکومتوں یا میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔
تازہ ترین