• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کی گرماگرمی زوروں پر ہے۔ ہر ایک پارٹی دوسروں پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ اخلاقی قدریں بالائے طاق رکھ دی گئی ہیں اور بہتان بازی اور الزامات زوروں پر ہیں۔ آئیے آج کچھ تبصرہ ان انتخابی مہمات پر کرتے ہیں۔
(1) سب سے پہلے میں تحریک انصاف اور عمران خان کے بارے میں ان سے معذرت کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
لوگوں کو عمران خان سے بہت اُمیدیں وابستہ تھیں اور اب بھی ہیں مگر ان کے دوسرے لیڈران پر ذاتی حملوں نے ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی تمام توپوں کا رُخ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جانب ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے وہ ذاتیات پر اُتر آئے ہیں اور شریف برادران پر غیرمہذب اور نازیبا حملے کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ بہتری آنے کے بجائے انکے لہجے اور بیانات میں کافی ناشائستگی آگئی ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت دُکھ ہوا کہ وہ اوئے اوئے کہہ کر شریف برادران کو مخاطب کرتے ہیں اور مخالفین کیلئے گیدڑ وغیرہ جیسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ چند ذی فہم اشخاص نے اخبارات میں عمران خان کی توجہ اس بات پر مبذول کرائی ہے۔ 29 تاریخ کے انگریزی روزنامہ دی نیوز میں ہشام بن مسعود نے نہایت اچھے الفاظ میں عمران کو ان کے اس رویّے کے خلاف نصیحت کی ہے وہ اس قسم کی حرکتوں سے اپنا نام خراب کررہے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ الزام بازی اور بہتان تراشی سے اجتناب کریں اور گندی زبان استعمال کرکے اپنی پوزیشن خراب نہ کریں ۔ ان سے لوگ اچھی توقعات رکھتے ہیں، اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے لئے غیر مہذب زبان کا استعمال مناسب نہیں لگتا۔

عمران خان اپنے آپ کو مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں بلکہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے انہوں نے میدان مار لیا ہے اور بس دو تین ہفتوں میں حلف اٹھانے والے ہیں۔ مجھ کو آج تک ان کی کسی تقریر کو سن کر یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ ایک مدبّر یا اُمور سلطنت کے ماہر کی تقریر ہے۔ انہوں نے کبھی ملکی مسائل پر اور ان کے حل پر کوئی تقریر نہیں کی۔ ہم ہر جلسہ میں گیند اور وکٹوں کی باتیں سنتے ہیں جو ایک21 سالہ مُردہ گھوڑا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان میں اس کی ٹیم کو شکست دی تھی۔ وہ یہ بھی بتا دیتے کہ اپنے ملک میں کتنی غیر ملکی ٹیموں سے شکست بھی کھائی تھی۔ یہی نہیں بلکہ یہ آج تک گیند اور 20 میٹر کی پچ سے آگے نہیں دیکھ سکے اور اگر اس دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو وہ تھانیدار اور پٹواری پر جاکر رُک گئی۔
ایک سیاسی مدبّر دوسروں پر تنقید اور غیرمہذبانہ زبان استعمال کرنے کے بجائے عوام کو اپنی پالیسی، ملکی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بتاتا ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ اُوباما کی تقریروں سے کچھ سیکھیں۔ اس نے آج تک بش پر کوئی حملے نہیں کئے اور مِٹ رومنی سے مباحثہ میں بھی شرافت اور شائستگی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حقیقت یہ ہے اور میرا قیاس یہ ہے (خدا کرے یہ غلط ہو) کہ عمران خان ، زرداری اور نواز شریف کے نقش ِ قدم پر چلیں گے اور ایک ڈکٹیٹرانہ رویّہ و پالیسی اختیار کریں گے۔ کم عقل، کم پڑھے لکھے کھلاڑیوں پر حکومت کا نشہ ان کی رَگ رَگ میں بس گیا ہے۔(2) آئیے اب کچھ پی پی پی کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ قارئین، ناظرین سامعین دیکھ رہے ہیں کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے پی پی پی الیکشن میں حصّہ ہی نہیں لے رہی ۔ یہ پہلے قبروں کے ٹرائل کے بہت خلاف تھے اور شور مچاتے تھے لیکن اب ان کی تمام مہم و کوششیں مُردوں کو فروخت کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اپنے پچھلے پانچ سال میں کوئی بھی قابل بیان کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ رشوت ستانی اور اقربا پروری کو دل کھول کر ترقی دی اور مدد کی۔ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر اب خاموش ہوگئے ہیں۔ اس وقت انکی پالیسی یہ ہے کہ اس الیکشن میں زیادہ زور شور سے حصّہ نہ لو، اپوزیشن میں چلے جاؤ اور لوگ جب آئندہ حکومت سے نالاں ہو جائیں تو یہ پھر دوبارہ شہید بن کر عوام سے ہمدردی کے ووٹ حاصل کریں۔ یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے دوتین سال میں وہ زرداری، بینظیر اور انکے ساتھیوں کی لوٹ مار، رشوت ستانی بھول جائینگے اور پھر یہ بھٹو اور بینظیر کی لاشوں کی تجارت کرینگے اور کامیاب ہوجائینگے۔(3) مولانا فضل الرحمن صاحب نے تمام توجہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر مبذول کی ہے۔ وہ سابقہ دور کی طرح کنگ میکر کا رول ادا کرنا پسند کرینگے اگرچہ مغربی ممالک کے بارے میں اور امریکی دخل اندازی کے بارے میں بیانات دیتے رہتے ہیں مگر عوام کو یہ شک ہے کہ وہ پس پردہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے ان ممالک کی ناراضی ہو۔ عمران خان کے غیرمہذبانہ حملوں کے جواب میں انہوں نے بھی عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ بنا دیا ہے اور ان سے رقوم وصول کرنے کا الزام بھی لگادیا ہے۔ یہ گندی سیاست ہے کہ انسان ذاتیات پر اُتر آئے اور پھر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالے۔(4) ایم کیو ایم اور اے این پی وہی کاٹ رہے ہیں جو اُنہوں نے بویا تھا۔ ایم کیو ایم دس سال سے زیادہ کراچی پر حکمرانی کررہی ہے اور اگر وہاں امن و امان کی پرابلم ہے اور طالبان بس گئے ہیں تو یہ ان کی اپنی نااہلی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح اے این پی نے جس طرح امریکی پالیسی کا ساتھ دیا ہے اور اپنے شہریوں کو بے رحمی سے مروایا ہے انکو بھی اسکا صلہ مل رہا ہے۔ وہ بے حد جانی و مالی نقصانات اُٹھا چکے ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ہی لوگوں کی ذہنیت و نفسیات نہیں سمجھ سکے ہیں۔ اب کراچی میں ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے دہشت گردی کو الیکشن کے التوا کی سازش قرار دیا ہے۔ یہ تینوں پارٹیاں پچھلے پانچ سال سے حکومت کررہی تھیں، پولیس ان کی تھی، رینجرز انکے تھے اور خفیہ ادارے ان کا ساتھ دے رہے تھے اور انہوں نے اس چیز کو روکنے کیلئے کوئی مفید و موثر اقدامات نہیں کئے اب واویلا مچا رہے ہیں۔ (5) آئیے اب ذرا مسلم لیگ(ن) اور میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی پالیسیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ن۔لیگ کو جو کچھ کامیابی حاصل ہوگی وہ صرف میاں شہباز شریف کی کارکردگی سے ہوگی۔ انہوں نے وفاق کی مخالفت کے باوجود بہت کام کئے اور اچھے کام بھی کئے۔ یہی نہیں بلکہ چوہدری پرویز الٰہی نے ہر اچھے کام کو بھی بُرا رنگ دے کر پیش کیا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے ان کی کارکردگی اور سوجھ بوجھ کے بارے میں ہمارے سابق سفیر جناب آصف ایزدی نے 29/اپریل کے روزنامہ دی نیوز میں بہت ہی اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ میرا خود ہمیشہ سے یہی نظریہ رہا ہے کہ میاں صاحب نے پچھلے برسوں کے حکومتی تجربے سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ ان میں ایک ڈکٹیٹرانہ رحجان ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے گھروالیا ہے جو ان کو پہلے تباہ کرا چکے ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہی کرینگے۔ آپ کو علم ہے کہ میاں صاحب کا پہلے جنرل آصف نوازسے جھگڑا ہوا پھر رشوت ستانی اور نااہلی کی وجہ سے حکومت برخواست ہوئی، پھر سپریم کورٹ پر ان کے ساتھیوں نے حملہ کیا اور پوری دنیا نے انکے ساتھیوں کو اس میں شرکت کرتے دیکھا۔ دوبارہ پھر حکومت برخواست ہوئی اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے غلام اسحاق خان مرحوم اور مجھے بتایا کہ ان کا وہ فیصلہ غلط تھا اور میاں صاحب کو واقعی گھر بھیجنا صحیح تھا۔ پھر جنرل جہانگیر کرامت سے جھگڑا کیااور بعد میں جس طرح مشرف کو برطرف کرنیکی کوشش کی یہ سب باتیں ان کی سمجھ بوجھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ڈالتی ہیں۔
ایک اور نعرہ میاں صاحب بار بار لگارہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوّت بنایا۔ جب میرے محب وطن رفقائے کار اور میں نے بم بنا دیئے تھے اس وقت میاں صاحب بھٹی میں لوہا (اسکریپ) پگھلایا کرتے تھے۔ ہم نے اسّی کے اوائل میں بموں کی تیاری شروع کردی تھی اس میں بھٹو صاحب، جنرل ضیاء اور غلام اسحاق خان نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ ہم اس وقت ایک ہفتہ کے نوٹس پر دھماکہ کرسکتے تھے۔ 1998ء میں جب ایٹمی ٹیسٹ ہوئے تو وہاں نہ میاں صاحب اور نہ ہی ان کا کوئی حواری موجود تھا۔ افسوسناک اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ ہر جگہ ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لے رہے ہیں مگر ان کو اتنی توفیق نہیں ہے کہ ان لوگوں کو بھی کریڈٹ دیں جنہوں نے یہ ناممکن کام ممکن کرکے دنیا کو حیران کردیا اور ملک کو ایک پسماندہ، شکست خوردہ ملک سے ایک ایٹمی اور میزائل قوّت بنا دیا۔ جناب آصف ایزدی نے بھی اپنے تجزیئے کو سمیٹتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب کو بہت کچھ سیکھنا اور بہت کچھ بھولنا سیکھنا ہے اور یہ مشکل نظر آتا ہے کہ انہوں نے خوشامدیوں کو اپنا مشیر خاص بنا رکھا ہے۔ پچھلے دنوں جناب محمد مالک نے میاں نواز شریف سے دو اہم سوال کئے ایک ڈرون حملوں سے متعلق تھا اور دوسرا زرداری کی صدارت کے لئے حمایت کا۔ میاں صاحب نے نہایت ہی مبہم طریقہ سے ان کا جواب دیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ دونوں کی حمایت کریں گے ۔ انہوں نے کھل کر نفی میں جواب نہیں دیا۔ قوم کا اور ملک کا مستقبل ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا ۔
تازہ ترین