• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان قبل از مسیح کے کسی دور میں ہیرو رہے ہوں گے، تاہم مجھے وہ زمانہ یاد نہیں کیونکہ میں اس وقت چھوٹا تھا، ان دنوں وہ پاکستان کی انتخابی فلم میں بطور ولن آ رہے ہیں، انہوں نے ہاتھوں میں گنڈاسہ پکڑا ہوا ہے اور میدان میں موجود امیدواروں کو للکارے مارتے نظر آتے ہیں۔
اوئے میں اڈتی ساراں تے دھرتی ہلا دیواں
اوئے تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گیاں
اوئے شیرا، میں تیرے تکے بنا کے کھاواں گا!
ولن کے ساتھ اس کے چمچے بھی ہوتے ہیں، ان کی بڑھکیں ولن سے بھی زیادہ زور دار ہوتی ہیں، ان میں سے ایک چمچے کا تکیہ کلام ”بھاڑے کے ٹٹو“ ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ اب خود وہ سر ”بھاڑے کے ٹٹو“ کے طور پر ہی جانا جاتا ہے، لوگ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں لیکن میں چونکہ اپنا کالم ”اللہ کے آخری نبی نے فرمایا“ اور ”گوجر خان کے درویش“ کے ملفوظات سے نہیں سجاتا لہٰذا میں بغیر ثبوت کے کسی پر وہ تہمتیں نہیں دھر سکتا جو یہ ”فقیر“ اپنے کالم میں اس شخص پر دھرتا ہے جو عمران خان کو کوئی مافوق الفطرت ہستی تسلیم نہیں کرتا! اسے نہ خدا یاد ہے اور نہ اس میں پیارا نبی، جنہوں نے لوگوں پر تہمتیں دھرنے والوں کے بارے میں کیا کیا وعیدیں سنائی ہیں؟
عمران خان ان دنوں صبح صبح اپنے محل سے ہاتھ میں گنڈاسہ لئے نکلتے ہیں اور پانچ سال تک پاکستانی عوام کی زندگی اجیرن بنانے والی جماعت پیپلز پارٹی کو مزید پانچ سال تک برسر اقتدار لانے کیلئے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اس ولن کو علم ہے کہ عوام کو پیپلز پارٹی کے مظالم سے اگر کوئی نجات دلا سکتا ہے تو وہ صرف نواز شریف ہے جبکہ عمران خان کی خواہش پی پی پی کو دوبارہ عوام پر مسلط کرنے کی ہے مگر اس جماعت کے دامن میں بدنامیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ خان کیلئے اسکے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہونا ممکن نہیں۔ عمران خان کو یہ بھی علم ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی صورت میں برسر اقتدار نہیں آ سکتی، کیونکہ ایک ”سروے“ کے مطابق مختلف جماعتوں کا مختلف علاقوں میں ”ہولڈ“ ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
پی پی پی، سندھ
پی ایم ایل ن : پنجاب
ایم کیو ایم، کراچی
تحریک انصاف: فیس بک
تاہم میں اس ”سروے“ سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان بطور ولن اپنی ساری بڑھکیں نواز شریف پر ضائع کر رہے ہیں، تاکہ ان کے ووٹ تقسیم کر سکیں اور یوں ان کی محبوب جماعت پی پی پی ایک دفعہ پھر عوام کا خون چوسنے کے لئے برسر اقتدار آ سکے۔ میرے خیال میں وہ سراسر اپنا نقصان کر رہے ہیں کیونکہ جتنا زور وہ پی پی پی کے مفاد کے لئے لگا رہے ہیں، وہ اگر اتنا زور اپنے لئے لگائیں تو ان کی پندرہ بیس نشستیں کہیں نہیں گئی ہوئیں۔ بصورت دیگر انہیں کچھ ملے گا اور نہ ان کی محبوب جماعت کے ہاتھ کچھ لگے گاے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ دعوؤں پر نہیں، کارکردگی پر جاتے ہیں اور کارکردگی بھی وہ جو نظر آئے۔ مثلاً سینکڑوں کلو میٹر لمبی موٹروے عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتی، عمران خان اور ان کا ”فقیر“ کالم نگار بھی سفر کیلئے اسی موٹروے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جدید سہولتوں سے لیس خوبصورت ایئر پورٹس کو بھی بڑے بڑے غلافوں سے چھپایا نہیں جا سکتا۔ گوادر کی بندرگاہ کا کریڈٹ صدر زرداری کو یا عمران خان کودینا ممکن نہیں، ہاریوں میں زمینوں کی تقسیم، غریبوں کی رہائش کے لئے مکانات کی تعمیر، پاکستان کو ایٹمی ملک بنانا، امریکی امداد کی بندش کے باوجود پاکستان کی معیشت میں بہتری لانا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کے بچوں کے لئے ایچی سن کالج کی سطح کے سکول قائم کرنا، ان کی سفری سہولتوں کے نئے میٹرو جیسے عظیم الشان منصوبوں کی تکمیل، سیلاب اور زلزلہ جیسی آفتوں کے دوران عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور ان کو درپیش مسائل کا مداوا کرنا، ملک بھر سے سائیکل رکشے میں ظالمانہ سواری کا خاتمہ اور اس کی جگہ آٹو رکشے تقسیم کرنا۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بہت کچھ۔ یہ سب مسلم لیگ ن کو ملنے والے مختصر ادوار میں ممکن ہوا۔ ایک اور بہت بڑا کریڈٹ کرپشن کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ میرٹ کی ”جان لیوا“ پابندی اس کے سوا ہے۔ کیا یہ تصور کر لیا جائے کہ عمران خان کو مسلم لیگ ن کی یہ عوام دوستی پسند نہیں آئی اور یوں وہ پی پی پی کی بحالی کے لئے بالواسطہ مہم چلانے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ معمولی درجے کے ولن کا ٹارگٹ بھی معمولی ہوتا ہے، مگر عمران خان کوئی چھوٹے موٹے ولن نہیں ہیں، ان کا ٹارگٹ نہ چاہتے ہوئے بھی پورا پاکستان ہے کیونکہ جو کردار وہ ادا کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ انشاء اللہ یہ نہیں نکلے گا لیکن انہیں اپنے طور پر بھی ایسا کوئی کام نادانستہ نہیں کرنا چاہئے جس کا نتیجہ پاکستان کی بربادی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان مسلم لیگ ن میں کیڑے نکالنے کی بجائے عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کیوں نہیں لاتے، نوجوان کی کارکردگی تھی، وہ کئی بار پیش کر چکے ہیں(1) نماز پڑھی(2) کرکٹ کھیلنا(3) شوکت خانم ہسپتال بنانا، مگر عوام انہیں ان عظیم کاموں کا کریڈٹ دینے کے لئے تیار ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز تو ہم بھی پڑھتے ہیں اور عمران خان کی نماز سے بہت پہلے سے پڑھتے چلے آ رہے ہیں، لہٰذا اگر وزیراعظم بننے کا کرائیٹیریا یہ ہے تو ”فرسٹ کم فرسٹ سرو“ کے اصول کے تحت سب سے پہلے سب سے پرانے نمازی کو ملک کا وزیراعظم بنایا جائے۔ اگر وزارت عظمیٰ کا حصول کرکٹ کھیلنے ہی سے منسلک ہے تو جاوید میانداد اور وسیم اکرم ایسے عظیم کرکٹر ”منگ پتہ“ تو نہیں کھیلتے رہے، ان میں سے کسی ایک کو وزارت عظمیٰ کی سند پر کیوں نہ بٹھایا جائے؟ اور اگر ایک آدھ فلاحی منصوبے کا ”معاوضہ“ کسی کو دنیا ہی ہے تو بین الاقوامی طور پر مسلمہ عبدالستار ایدھی ایسے عظیم شخص کو ”معاوضہ“ نہیں بلکہ سر آنکھوں پر کیوں نہ بٹھایا جائے جن کی انسان دوستی کی قائم کردہ مثالوں کا کوئی ثانی نہیں؟ لہٰذا جو لوگ عمران خان سے ان کی کارکردگی کا حساب مانگتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ہمارے خاں صاحب کو اس امتحان میں نہ ڈالیں اور سچ بولیں تو عوام کی زبان سے یہ سوال جچتا ہی نہیں کیونکہ خاں صاحب نے ایک الیکشن میں اپنے ایک سو سات امیدوار کھڑے کئے اور عوام نے ان سب کو عبرتناک شکست دی، حتیٰ کہ خود خان صاحب آٹھ نشستوں سے کھڑے ہوئے تھے، عوام نے سات نشستوں پر سے ان کی ضمانت تک ضبط کرا دی جس کے نتیجے میں وہ اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ انہوں نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ہی کر دیا۔ چنانچہ اب کے وہ پیپلز پارٹی کو جتوانے کے لئے میدان میں اترے ہیں اور آپ جیسے ”بدلحاظ“ لوگ انہیں ایک بار پھر پہلے کی طرح شرمندہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ہاں، ان کی ان مسلسل ناکامیوں کو ان کے کالم نگار یعنی چھوٹے خاں صاحب انہیں قائداعظم کا مثل قرار دیتے ہیں۔ قائداعظم کی اس سے زیادہ توہین نہیں کی جا سکتی۔ قائداعظم پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں جبکہ خاں صاحب اس وقت ولن کے کردار میں سامنے آ رہے ہیں۔ خدا کے لئے عرش کو عرش اور فرش کو فرش ہی رہنے دیں !
تازہ ترین