• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کی ایما پر لاہور اور پنجاب کے کچھ دوسرے شہروں میں بم دھماکے کرنے والے سربجیت سنگھ کو چودہ پاکستانیوں کے قتل اور درجنوں افراد کو زخمی کرنے پر سپریم کورٹ تک تمام عدالتوں نے سزائے موت دی مگر ہمارے حکمرانوں نے اس دہشتگرد کو ایک سنگین مجرم کے طور پر سولی پر چڑھانے کی بجائے ایک ہیرو بنا کر ہندستان کے حوالے کر دیا۔ اگر عدالت سے سزا یافتہ اس دہشتگرد کو پھانسی پر چڑھایا جاتا اور اس کی لاش کو ہندوستان کے حوالے کیا جاتا توانڈین حکومت کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا کہ ایسے سزایافتہ قاتل اور دہشتگرد کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سلامی دے کر اُس کی آخری رسومات کو ادا کیا جاتا۔ حقیقت جانتے ہوے کہ سربجیت پاکستانیوں کا قاتل اور دہشتگرد تھا مگرانڈیا کی حکمران پارٹی کے اہم ترین لیڈر اور گاندھی خاندان کے مستقبل راہول گاندھی نے بھی اس دہشتگرد کی آخری رسومات میں شامل ہو کر پاکستان کے خلاف نفرت کو بڑھانے کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ پہلے مشرف اور پھر آصف علی زرداری ہندوستان سے اپنی دوستی نبھانے کے چکر میں ایک ایک کر کے سزا یافتہ ہندوستانی جاسوسوں اور مجرموں کو چھوڑتے رہے۔ مگر ہر بار ہندوستان نے پاکستان کو جواب میں اپنی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی لاشوں کاہی تحفہ دیا۔ ہم نے تو بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والے ہندوستان کو کشمیر سنگھ جیسے جاسوس کو سزا یافتہ ہونے کے باوجود اُن کے حوالے کیا کہ شاید پاکستان کے وجود کو آج تک تسلیم نہ کرنے والا ہندو اس حقیقت کو تسلیم کر لے۔ کشمیر سنگھ کو ہمارے میڈیا اور حکومت نے ہیرو بنا کر پیش کیا اور ٹی وی پردن رات اُس کو ایسے دکھایا گیا جیسے کوئی نیا قائد یہاں پیدا ہو گیا ہو۔ مگر کشمیر سنگھ جس کے بارے میں ہمارے میڈیا نے بتایا کہ وہ قید کے دوران مسلمان ہو چکا، نے ہندستان میں داخل ہوتے ہی بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ وہ بھارت کا پاکستان میں جاسوس تھا اور یہ بھی کہ وہ تو سکھ تھا اور سکھ ہی رہے گا۔ ہم نے دوسروں کے علاوہ ایک اور سزا یافتہ مجرم سرجیت سنگھ کو بڑے عزت اور احترام کے ساتھ ہندوستان کے حوالے کیا مگر ہندوستان نے جواب میں پہلے اجمل قصاب اور اس کے بعد افضل گورو کو پھانسی چڑھا دیا اور اُن کی میتوں کو اُن کے لواحقین کے حوالے بھی کرنے سے انکار کر دیا۔ افضل گورو کی سزا اور ٹرائل کو تو ہندستان کے اندر موجودافراد نے بھی شک کی نگاہ سے دیکھا۔قصاب اور گورو کی پھانسی پر پاکستان میں بھی یہ مطالبہ کیا گیا کہ سربجیت سنگھ کو پھانسی چڑھا دیا جائے مگر ہمارے حکمران ایسا کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پچھلی حکومت کی طرح وہ بھی شاید اس انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور سربجیت سنگھ جیسے سزا یافتہ قاتل اور دہشتگردکوہندوستان کی دوستی کے حصول کے لیے چودہ پاکستانیوں کی شہادت کو بھلاتے ہوئے اُس کے حوالے کر دیا جائے۔مگر جب حوالے کرنے کا وقت آیا تو ہم نے سربجیت کوایک سنگدل مجرم کی بجائے ایک مقتول کے طور پر ہندوستان کے حوالے کر کے اُسے اپنا منہ کالا کرنے کا موقع دیا۔ وہاں قید ہمارے ایک پاکستانی ثنا اللہ پر ایک سابق بھارتی فوجی سے قاتلانہ حملہ کروا کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کا موقع بھی ہمارے ”دوست“ ہندستان نے ضائع نہیں کیا۔ ہم تو اس سب کے باوجود ہندستان کی ایسی محبت میں گرفتار ہیں کہ انڈین فلمیں اورانڈین اشتہارات کے بغیر ہم جی نہیں سکتے۔ چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی ہم انڈین فلموں، ڈراموں اور اُن کے اشتہارات پر مرتے ہیں۔ اس سب پر اگر ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں اور فوج کا قصور ہے تو اس سلسلے میں ہمارا میڈیا بھی آگے آگے ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے بشمول میڈیا کی ہندوستان سے یکطرفہ محبت ایسی ہے کہ بار بار انڈیا سے منہ کی کھانے کے باوجودہمیں جیسے یہ احساس دلانے کی کوشش کی جا رہی ہو کہ گویا ہم نے ہندوستان سے الگ ہو کر کوئی غلطی کی تھی۔ کاش ہم ہندوستان میں مسلمانوں سے ہونے والے بدسلوکی سے کچھ سیکھیں۔ ہمیں تو شاہ رخ اور شبانہ اعظمی جیسوں کی آہیں اور سسکیاں بھی سنائی نہیں دیتی کہ جنہوں نے اپنے آپ کو ہندووں کے رنگ میں رنگا مگر اس کے باوجود مسلمان ہونے پر اُن کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔ مگر ہم تو ایسے نا شکرے ہیں کہ نہ تو ہمیں آزادی کی نعمت کا احساس ہے اور نہ ہی اُس عظیم نعرہ (پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہٰ الاللہ) کا خیال جس کی بنیاد پر پاکستان بنا۔ہماری تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ بے حیائی پر دنیا میں کوئی مقابلہ ہو جائے تو ہم میڈیا میں اُسے خوب دکھائیں گے۔ گناہ کا کوئی کام ہو اُس کی تشہیر کرنے میں ہمیں کوئی شرم محسوس نہ ہو گی مگر جب اسلام اور اسلام سے محبت کی بات ہو گی تو ہم اپنی آنکھ بند کر لیں گے۔ میڈیا کی بددیانتی اور اسلام سے دوری کا یہ حال ہے کہ حالیہ امریکی پیو سروے کو ہمارے ٹی وی چینلز نے اس طرح بلیک آوٹ کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔پیو سروے کے مطابق پاکستان کے 84فیصد مسلمان اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں جب کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں 75فیصد کی یہی خواہش ہے۔مجھے کسی ٹی وی چینل پر یہ خبر نہیں دکھائی دی۔اس امریکی سروے کو تو ٹاک شوز میں ڈسکس ہونا چاہیے تھا مگر کیا کسی ایک بھی اینکر پرسن نے اس مسئلہ پر بات کی۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ اگر اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہوتا ہے تو میڈیا کی بیہودگیوں، بے شرمیوں، فحاشی وعریانیت، اخلاق سے گرے اشتہارات اور ڈراموں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم نے آخر دنیا ہی تو کمانی ہے۔ آخرت کی کس کو فکر ہے۔
تازہ ترین