• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب حادثہ یا واقعہ گزر جاتا ہے یا پھر جارہا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اس کی قابلیت، فلسفہ اور اس کے بعد نتیجہ کیا ہو گا۔ اس سے نہ صرف غافل رہتے ہیں مگر بعدازاں جب بھگتان بھگتنا پڑتا ہے تو کف افسوس ملتے ہیں۔ تاریخ اس تجربے کو جن الفاظ میں یاد کرتی ہے۔ ان کی طرف میں اشارتاً بھی بتائوں تو آپ کہیں گے ارے یہ سچ تو ہم سے مخفی رہا اور اس کے اثرات آج کل بھی منفی صورت میں ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ اب شروع ہو جائیں، تقسیم کے واقعات و المناکی تو خیر سارے ادیبوں اور پھر تاریخ نویسوں نے اپنے اپنے نقطہ ٔ نظر سے لکھ دی ہے مگر وہ واقعات جن کی جانب میں اشارے کر رہی ہوں۔ ان کے اثرات ہم پر کیا پڑے۔ دیکھئے ہم نے 1948ء میں کشمیر میں افغان اور پٹھان حملہ آور داخل کئے، نتیجہ کیا نکلا۔ پھر آگے آئیے۔ میں سچ بتائوں یہ تمام واقعات اخون زادہ نامی شخص نے بتائے ہیں کہ جس کی عمر 99سال ہے جو حملہ آور جتھے میں شامل تھے اور جو حملہ بعدازاں، اقوام متحدہ نے رکوایا تھا۔ پھر آئیے یاد کریں جنرل موسیٰ کے آپریشن جبرالٹر کو جسے آپریشن گرینڈ سلام کا نام دیا گیا پھر کارگل کا ایڈونچر اور اب دونوں جانب سے فوجی اور سول نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان میں پشاور کے بڑے اسکول کے بچوں کو اور اب کوئٹہ اور دیر پشاور کے غریب بچوں کو خون میں نہلایا گیا ہے۔ ہزار گنجی اور دیر پشاور میں مسلمان بچے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ جب بھی ایسا حادثہ ہوتا ہے تو ہمارے سامنے داعش افغان گروپ، طالبان پاکستان اور افغانستان طالبان گروپ کابل کے نام آجاتے ہیں۔ پورے افغانستان میں بھی روز خودکش حملے اور تھیلے میں بھرے بم پھٹتے ہیں ۔کبھی بھی اپنے ملک کےادارے نہیں بولتے۔ پھر کیا ہوتا ہے۔ کوئی اسمبلی میں الٹا سیدھا بیان دیتا ہے اور کبھی ہمارے وزیر خارجہ لوگوں کو الزام دیتے ہوئے نام باقاعدہ پارلیمان میں لیتے ہیں۔ کیا یہ روّیہ جلتی پر تیل کا کام نہیں کرتا۔ بولنا ہوتا ہے مہنگائی پر۔ مگر بولتے ہیں تو ایسے جب جنرل موسیٰ کا مشن ناکام ہو گیا تو انہوں نے کہا ’’یہ منصوبہ تو وزارتِ خارجہ نے تیار کیا تھا‘‘۔ پھر جب جنرل مشرف کا کارگل ناکام ہوا تو انہوں نے الزام اس وقت کے وزیراعظم پر لگا کر خود کو الگ کر لیا ۔ یہ سارا احوال آپ کو نسیم زہرہ کی کتاب میں مل جائے گا۔سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے ایک سیاسی لغت لکھنے کا جرم میں نے کیا ہے:

ہم جیسے ملکوں میں

اضافہ صرف غربت اور

آبادی میں ہوتا ہے

تعلیم بالغاں کا سبق پڑھ کر

کچھ الفاظ سیکھ جاتے ہیں

’ح‘ سے حکومت

’ظ‘ سے ظلم

اور ’ط‘ سے طاقت

یہ حکومت، ظلم اور طاقت

کی تکون، گرتی پڑتی

کچھ دیر ’ع‘ سے عوام کے ذریعہ

ڈوبتی اُبھرتی رہتی ہے

عوام کو سبق پڑھانے والے

’ص‘ سے صبر کہتے ہیں

’ج‘ سے جلسوں کی رونق

بڑھانے کیلئے کندھے پر

بٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں

کہو زندہ باد، کہو مردہ باد

’ع‘ سے عوام

’ر‘ سے روٹی

مانگتے تھکتے نہیں

تو انہیں نیا سبق

’غ‘سے غدار سکھایا جاتا ہے

روٹی پھر بھی نہیں ملتی

پھر اچانک تکون کی جگہ

دائرہ نمودار ہوتا ہے

وہ سکھاتا ہے

قحط کی صورت میں

حرام بھی حلال ہوتاہے

جو ملے اُسے قوم کا مستقبل

سمجھ کر قبول کر لو

کسی دن کیا رات میں بھی

اپنے مقدر کو مت کوسو

یہ دائرہ ہی تمہارا مقدر ہے

دائرے میں چکر لگاتے لگاتے

’ع‘ سے عوام غائب

کھلے آنگن میں

کون راج کرتا ہے

’ش‘ سے شیطان

لاحول ولا قوت

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین