• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دل بہت رنجور ہے کہ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی نہایت قابلِ رشک زندگی بسر کر کے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، مگر اِسی کے ساتھ مَیں اپنے اندر نشاط کی ایک عجب کیفیت سے بھی سرشار ہوں کہ غریب گھرانے کے ایک جواں عزم اور اُمیدوں سے منور فرد نے شاہراہِ حیات پر سنگ ہائے میل ثبت کیے ہیں۔ اُن کو اللہ تعالیٰ نے بےپایاں تخلیقی اور قائدانہ اَوصاف عطا کیے تھے جن کی بدولت اُنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تعمیری اور صدقہ جاریہ کی سرگرمیوں میں صرف کیا۔ دراصل ہمارے والدین کی تربیت نے ہمارے اندر اعلیٰ نصب العین کے لیے سرگرم رہنے اور اِنسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کا جذبہ اُبھارا تھا۔ ہماری والدہ محترمہ فردوسی بیگم نے اپنی اولاد کو ہمیشہ باوضو دودھ پلایا۔ ہمارے والد شیخ عبدالغفار محکمہ انہار میں پٹواری تھے، اُن کو قرآنِ حکیم سے گہرا لگاؤ تھا۔ وہ ہم سے صبح سویرے قرآن کی سورتیں سنتے، اُن کا مطلب سمجھاتے اور بعد ازاں ہمیں مولانا ظفر علی خاں کے اشعار سناتے اور دُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ میری اولاد میں سے کسی کو صحافت میں اُن جیسا عظیم کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اعجاز صاحب مجھ سے دو سال بڑے اور اسکول میں تین جماعت آگے تھے۔ اُنہوں نے 1944ء میں سرسہ ہائی اسکول، ضلع حصار سے میٹرک اوّل پوزیشن میں پاس کیا تھا۔ یہ اعزاز مسلم طلبہ کو شاذ و نادر ہی نصیب ہوتا تھا۔ 1947ء میں یہی شرف مجھے حاصل ہوا۔ ہمارے جغرافیے کے استاد جناب شہاب الدین تھے جو علی گڑھ یونیورسٹی سے تازہ تازہ ماسٹر کر کے آئے تھے۔ اُنہوں نے اعجاز صاحب کو علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا کہ وہاں کا علمی اور تہذیبی ماحول زندگی کو ایک نئی معنویت عطا کرتا ہے۔ وہ والد صاحب کے پاس گئے اور اُن سے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش ظاہر کی۔ اُن کی ڈاک خانے میں بچت کوئی 115 روپے تھی جس میں سے سو روپے اعجاز صاحب کو دے دِیے۔ اِس متاع کے ساتھ وہ علی گڑھ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ نمبر اچھے تھے، اِس لیے داخلہ بھی مل گیا، فیس بھی معاف ہو گئی اور ایک ٹیوشن پڑھانے کا انتظام بھی ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’’ینگ مین سہارن پوری ایسوسی ایشن‘‘ بہت فعال تھی جو اپنی کمیونٹی کے طالب علموں کو وظیفہ دیتی تھی۔ اِس کی طرف سے دس روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا جس کا اعجاز صاحب اکثر ذکر کرتے کہ مجھے اِس کی بدولت پوری توجہ سے تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی تھی۔

علی گڑھ جانے سے پہلے وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے متعارف ہو چکے تھے۔ ہمارے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن سب سے پہلے جماعتِ اسلامی کے رکن بنے۔ ہمارے گھر ماہنامہ ترجمان القرآن آتا جسے ہم تینوں بھائی شوق سے پڑھتے تھے۔ اُن دنوں مولانا ’’مسلمان اور سیاسی کشمکش‘‘ کے عنوان سے مضامین قسط وار شائع کر رہے تھے۔ اعجاز صاحب اِن مباحث کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے دورانِ قیام، تحریک ِ پاکستان کے ساتھ ساتھ جماعت ِ اسلامی کی سرگرمیوں میں اُن کی دلچسپی بڑھتی گئی۔ اُنہوں نے جماعت ِ اسلامی کے آل انڈیا اجتماعات، جو الہ آباد اور پٹنہ میں 1945-46ء میں منعقد ہوئے تھے، میں شرکت کی۔ پاکستان بننے سے کچھ ماہ پہلے جماعت ِ اسلامی کا ایک بہت اہم اجتماع پٹھان کوٹ میں ہوا جس میں اعجاز صاحب شریک ہوئے تھے۔ اِس موقع پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے طلبہ میں تحریکی کام شروع کرنے پر غور کیا اور اِسلامی جمعیت طلبہ کا منصوبہ تیار ہوا۔ نوجوانوں کے اِس اجتماع میں بلندپایہ صحافی اور شاعر نصراللہ خاں عزیز کے صاحبزادے ملک ظفراللہ خاں بھی شامل تھے۔ پاکستان بننے کے بعد اُنہوں نے گوالمنڈی، لاہور کی پھول منزل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام کا اعلان کیا جس میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

1945ء میں علی گڑھ یونیورسٹی تحریک ِ پاکستان کا ایک نہایت فعال مرکز بن چکی تھی۔ یہاں قائد ِاعظم گاہے گاہے تشریف لاتے اور اساتذہ اور طلبہ میں آزادی کی روح پھونکتے اور تحریک ِ پاکستان کے عظیم الشان مقاصد اُن کے ذہنوں میں اتارتے تھے۔ اِسی سال مرکز اور صوبوں میں انتخابات منعقد ہونے والے تھے جو قیامِ پاکستان کے لیے فیصلہ کُن مرحلے کی حیثیت کے حامل تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوابزادہ لیاقت علی خاں علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لائے اور طلبہ سے انتخابی مہم میں تمام تر توانائیوں کے ساتھ حصّہ لینے کی اپیل کی، چنانچہ مختلف صوبوں کے لیے اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی ٹولیاں ترتیب دی گئیں۔ پروفیسر ڈاکٹر این اے بلوچ کی قیادت میں اعجاز صاحب طلبہ کے ساتھ صوبہ سندھ کے دورے پر نکلے۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی آمد سے مسلم ووٹروں میں زبردست جوش و خروش پیدا ہوا اور آل انڈیا مسلم لیگ کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔

اعجاز صاحب ایف ایس سی کا امتحان دینے کے بعد چھٹیوں پر جون 1947ء میں لاہور آئے۔ انہی دنوں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوؤں نے بڑی مکاری سے کام لیتے ہوئے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کر دیا تھا اور سب سے زیادہ خونریز فسادات امرتسر سے شروع ہوئے۔ اِن حالات میں اعجاز صاحب کے لیے علی گڑھ واپس جانا محال ہو گیا۔ باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ قیامِ پاکستان کے دو روز بعد آیا۔ ہمارا حُسنِ ظن یہ تھا کہ سرسے کی تحصیل مسلمانوں کی اکثریت کی بدولت پاکستان میں شامل ہو گی، مگر جب فیصلہ آیا، تو ایک دنیا ششدر رہ گئی۔ مسلمانوں کے اکثریتی اضلاع بھارت کے حوالے کر دیے گئے تھے۔ اب ہم مہاجر تھے جنہیں پاکستان جانا تھا، چنانچہ تمام شہریوں پر مشتمل سبزی منڈی میں مہاجر کیمپ قائم ہوا جہاں ہمارا گھر بھی واقع تھا۔ ہم اِس کیمپ میں تین ماہ خطرات میں گھرے رہے۔ علاقے کے لوگوں نے اعجاز صاحب کو اِس کیمپ کا کمانڈر منتخب کر لیا۔ اِس دوران اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کا جو حیرت انگیز مظاہرہ ہوا، اُس نے ایک تابناک عہد کی نوید سنا دی تھی۔ اِس تابناک عہد کی داستان اہلِ ہمت کے لیے نسخۂ کیمیا سے کسی طرح کم نہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین