• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کا موسم ہے کوئی اور بات غیر موسمی لگے گی۔ الیکشن میں سب سے اہم بات ہوتی ہے اس کا صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونا۔ ہماری تاریخ میں چند ہی بار ایسا ہوا، 1970ء کا الیکشن تو اتنا شفاف تھا کہ پورے سال مہم چلی۔ میں 1970ء میں پشاور کی ایک خبر رساں ایجنسی کا واحد رپورٹر تھا سو جہاں ضرورت ہوتی تھی اپنے آپ کو بیورو چیف کا نام دے دیتا تھا اور کام وہی کرنا ہوتا تھا یعنی رپورٹنگ۔ پشاور کا آفس مرکزی جگہ تھا اور اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے اس وقت کے سیاستدان واقعی بڑے تھے۔ میرے آفس میں مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد خود اپنے الیکشن کی پریس ریلیز لے کر آتے تھے۔ مولانا تو مفتی محمود صاحب کی مصروفیات اور قاضی صاحب اس وقت پشاور کی تنظیم کے سیکرٹری تھے۔ میری ڈیوٹی تھی کہ پورا صوبہ سرحد مجھے اکیلے کور (Cover) کرنا ہوتا تھا اور اس طرح مجھے سرحد میں مقیم سارے سیاسی لیڈروں کی خبریں دینا ہوتی تھیں۔ ملک کے بڑے بڑے سیاسی نام میری حدود میں آتے تھے ان میں خان قیوم خان، خان ولی خان، مفتی محمود صاحب، اصغر خان صاحب، مولانا ہزاروی، حیات خان شیر پاؤ تو قابل ذکر تھے ہی لیکن خود بھٹو صاحب ہر ہفتہ پشاور میں ہوتے تھے اور باقی لیڈر بھی۔ 1970ء کا الیکشن میری نظر میں سب سے صاف اور شفاف تھا کیونکہ فوج نے اپنے آپ کو الگ کر لیا تھا گو جنرل یحییٰ خان صدر تھے پورا سال مہم چلی اور ہم سب تھک گئے تھے۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ قیوم خان یا ولی خان صاحب کے کسی لیڈر کا فون آجاتا تھا کہ انہوں نے فلاں جگہ تقریر کی ہے اور کہا وہی ہے جو پچھلے جلسے میں یا شہر میں کہا تھا خبر آپ خود بنا لیں۔ اہم جلسوں کو میں خود جا کر رپورٹ کرتا تھا ۔ سیاست بھی شفاف تھی اور الیکشن بھی۔ پھر 1988ء، 1990ء، 1993ء کے الیکشن بھی کور کئے اور بات 2008ء اور پھر اب 2013ء تک آپہنچی ہے۔ 2008ء کا الیکشن بھی کسی مداخلت کے بغیر ہی ہوا گو اس سے پہلے NRO ہو چکا تھا اور بینظیر بھٹو اس معاہدے کوتوڑنے کی سزا جان دے کر بھگت چکی تھیں۔ لاٹری جناب زرداری کے نام نکلی تھی اور انہوں نے بھی اسے لاٹری ہی سمجھ کر انعام و اکرام سمیٹا، بات یہاں تک آگئی کہ 2013ء میں بھٹو اور بینظیر کی پارٹی کے پاس کوئی نعرہ ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ”ہم بھٹو ہیں، ہم بینظیر ہیں“ کوئی نہیں کہتا میں زرداری ہوں اور پانچ سال سے پارٹی اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہوں، ہر ایک میری جیب میں ہے چاہے وہ میاں نواز شریف ہوں، اسفند یار ولی ہوں، مولانا فضل الرحمن ، چوہدری برادران یا الطاف بھائی۔ سب میرے ساتھ مل کر حکومت کر چکے ہیں اور جب میں چاہوں ان کو حکومت میں بٹھا دیتا ہوں اور جب چاہوں اپوزیشن میں، صوبائی حکومتیں بھی میں نے بنائیں اور عبوری حکومتیں بھی، فوج کو بھی میں نے اس کی حد میں رکھا اور عدالتوں کی تو میں نے وہ مٹی پلید کی کہ جج صاحبان بھی یاد کریں گے۔ میڈیا کو میں نے پورا نہیں تو 75 فیصد قابو میں رکھا اورپورے پانچ سال اپنا اور دوستوں کا کام نکال لیا اب مجھے کسی نعرے کی ضرورت نہیں، پارٹی کے لوگ خود الیکشن لڑیں ہاریں یا جیتیں ان کی ہمت۔ میں تو بلاول کو بھی پھنسانا نہیں چاہتا ایک دو تقریریں رٹا کر ریکارڈ کرا دی ہیں وہی کافی ہیں“۔ سو پی پی پی نے تو میدان چھوڑ دیا۔ رہ گئے نواز شریف اور عمران خان جو لڑ رہے ہیں باقی اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو بچانے میں لگے ہیں۔
سو کیا الیکشن صاف شفاف ہو گا۔ جسے Pre-Poll Rigging کہا جاتا ہے وہ تو ہو گئی یعنی الیکشن کمیشن اور عبوری حکومتیں زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی مرضی سے بن گئیں اور وہ کام بھی دکھا رہی ہیں۔ ایک بندہ کسی بھی وجہ سے الیکشن سے باہر نہیں ہوا چاہے ثبوت مضبوط تھے یا کمزور، سارے دوست اور اپنے مقرر کردہ وزیر، مشیر اور سفیر اور افسر موجود ہیں۔ صرف فوج کاکردار کچھ دھندلا سا ہے مگر جنرل کیانی کہہ چکے ہیں وہ شفاف الیکشن چاہتے ہیں اور لوگ اچھے لوگوں کو منتخب کریں۔ مگر میں نے لکھا کہ کردار دھندلا ہے وہ اس لئے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پیچھے بیٹھ کر کھیل کھیلتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کیا چیز ہے میں نے خود 1990ء کے الیکشن میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان کو چوری کرتے ہوئے پکڑا بھی۔ مختصراً ہوا یہ کہ میں ایک انگریزی روزنامہ کے لئے الیکشن کور کر رہا تھا اور ہم کچھ رپورٹر کمیشن والوں کے پیچھے پڑ گئے کہ نتائج کے اعلان کا طریقہ کار بتایا جائے میرے ساتھی ناصر ملک اور کچھ دوسرے بضد تھے تو الیکشن کمیشن والے ہمیں اس خفیہ فلور پر لے گئے جہاں نتائج وصول ہو رہے تھے چکر یہ تھا کہ ریٹرننگ افسر سارے پولنگ اسٹیشن کے ووٹ گن کر ایک فیکس ایک افسر کو اس خفیہ فلور پر بھیجتا تھا۔ وہاں سے ہمارے سامنے وہ کاپی ایوان صدر میں ایک سیل کو فیکس کی جاتی اور جواب آنے پردوبارہ RO کو بھیجی جاتی پھر وہ اعلان کرتا اور وہی کاپیPTV کو دے دی جاتی۔ اصل کام ایوان صدر کا تھا وہ جس کے جتنے ووٹ کم اور زیادہ کر کے ہارنے یا جیتنے کا فیصلہ کرتے۔ اس وقت نہ TV چینل تھے اور نہ موبائل فون صرف فیکس اور فون پرکام ہوتا تھا۔ لوگ مجبور تھے کہ کوئی مربوط نظام نہیں تھا کہ سارے پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج ایک جگہ اور فوراً جمع کر لئے جاتے۔ میں نے یہ سب لکھا اور پھر کتابوں میں بھی شائع ہوا۔ اب اس طرح کی دھاندلی ممکن نہیں اب فوج یا کوئی اور ایجنسی اگر چاہے بھی تو ووٹ کی ہیر پھیر بڑے حلقوں میں نہیں کر سکتے، ہاں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں، فاٹا کے حلقوں میں کچھ آزاد امیدواروں کیلئے اور زیادہ سے زیادہ 25-30 سیٹوں پر اپنا اثر ضرور دکھا سکتے ہیں مگر اصل کام ہوگا نتائج آنے کے بعد۔ اگر اسمبلی کی شکل اتنی بگڑی کہ کوئی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آئی تو پھر درون خانہ کافی کام ہوگا۔ فوج اور امریکہ کو ایک ایسی حکومت چاہئے جو امریکی افواج اور اسلحہ کی کابل سے واپسی میں طالبان اور دوسری طاقتوں کی رکاوٹوں کو برداشت نہ کرے۔ ان اہم معاملات پر نواز شریف اور عمران خان سے فوج کی بات تو ہو رہی ہے نتیجہ کیا نکلا ابھی معلوم نہیں مگر اصل گیم 11 مئی کے بعد ہوگا۔
یہ تو واضح ہے کہ اب تک فوج نے مداخلت نہیں کی اور زرداری، الطاف بھائی اور اسفند یار کی ہر بات سنی اور مانی۔ اب نواز شریف اور عمران خان سے بات کرنا پڑے گی کیونکہ وہ نعرہ تو غائب ہوگیا یعنی ”اگلی باری پھر زرداری“ کوئی کہنے کو تیار نہیں۔ پی پی پی کے سارے بڑے لیڈر، زرداری سے لیکر مخدوم امین فہیم، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف،ڈاکٹر عاصم حسین، ڈاکٹر سومرو، رحمن ملک، مظفر ٹپی اور کئی دوسرے عدالتوں میں کیس بھگت رہے ہیں اور الیکشن کے بعد ان کیسوں کی نوعیت فوری طور پر بدل جائے گی پھر لمبی لمبی تاریخیں نہیں ملیں گی اور نہ عدالت سے مستثنیٰ، سو اگر زرداری صاحب کو اتنی سیٹیں مل گئیں کہ وہ سندھ میں حکومت بنا کر اپنا بلاول ہاؤس اور کلفٹن کا قلعہ بچا لیں تو وہ بہت خوش ہوں گے۔ میری اطلاع ہے کہ کام کے لوگوں کو بھاگنے نہیں دیا جائے گا مگر زرداری صاحب کے لئے دوبارہ صدر منتخب ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ سینیٹ میں پی پی پی کا ایک مضبوط فارورڈ بلاک تیار ہے اور جیسے ہی پی پی پی الیکشن ہارتی ہے زرداری صاحب کے خلاف محاذ کھڑا ہو جائے گا کہ انہوں نے پارٹی کا کیا حشر بگاڑ دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اگر پی پی پی کی شکست بہت عبرت آموز ہوئی تو یہ مطالبہ بھی زور پکڑ جائے کہ زرداری صاحب کو صدارت سے ہٹایا جائے۔ عمران خان تو کہہ چکے ہیں کہ وہ ان سے حلف نہیں لیں گے مگر یہ ایک نعرہ ہی ہے مگر حالات کی طرف نشاندہی ضرور کرتا ہے۔ آخر نواز شریف کے وزیروں نے جنرل مشرف سے حلف لے ہی لیا تھا، کالی پٹیاں باندھ کر ہی سہی۔
تو قوم ووٹ دینے کے لئے تیار ہو جائے۔ بہانے بازی میں نہ آئے جیسے کہ پی پی پی، متحدہ اور عوامی نیشنل پارٹی والے کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ یہ سازش کر رہے ہیں۔ سازش کیا ہے کہ یہ دونوں مل کر طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ ان تین پارٹیوں کو مہم مت چلانے دو یعنی ہمارے حلیفوں کو ہٹا دو راستے سے ۔ کیا خوب استدلال ہے آخر کراچی اور سندھ میں اگر مہم نہیں چلے گی تو سوچیں فائدہ کسے ہوگا!!
تازہ ترین