• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدارا! یہ بھی تو دیکھیں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے ”اَن دیکھے ہاتھ“ ہیں جو قدم قدم پر رکاٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ طالبان پاکستان نام کے کچھ لوگ ہر بم دھماکہ، خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں… کراچی، بلوچستان میں ووٹ ڈالنے کے خلاف پمفلٹ تقسیم کئے جارہے ہیں۔ ”خلافت قائم کرو“کی وال چاکنگ ہو رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے اس طرح ایک اندھا خوف پیداکرنے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ عوام انتخابی عمل سے لاتعلق ہو جائیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ کراچی، خیرپختونخوا اور بلوچستان میں ”خون کی ہولی“ نہ کھیلی جاتی ہو۔ اس پر بھی توجہ دی جائے کہ بیگناہوں کو قتل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ سب کہتے ہیں اور ہر ایک کی خواہش یہی ہے کہ عام انتخابات پرامن فضا میں منعقد ہوں۔ لوگ ووٹ کا حق استعما ل کریں لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ ووٹروں کوپولنگ سٹیشن تک جانے کی ضمانت کون دے گا؟ اس وقت جب انتخابات میں صرف اور صرف 8 دن رہ گئے سیاسی جماعتوں، محب وطن حلقوں اور خاص طور پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوری عمل کو پرامن بنانے، افہام و تفہیم کی خوشگوار فضا قائم کرنے میں مددگار و معاون ہو، سنسنی خیز خبروں، تحریروں سے اجتناب کیا جائے اور اگر کچھ ”گھس بیٹھئے“ اختلافات کو ہوا دیں تو ان کا گریبان پکڑا جائے… وزارت ِ داخلہ کی جانب سے جو اطلاعات دی جارہی ہیں اس کے مطابق خودکش حملوں و بم دھماکوں میں اور تیزی آئے گی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ فوج کے سربراہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ انتخابات 11مئی کو ہوں گے فوج معاونت کرے گی سیاسی جماعتوں ،امیدواروں کو بھی باہمی مفاہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ”ضابطہ اخلاق“ پر عمل کرنا چاہئے۔ بلّا ہو یا شیر، تیر ہو یا سائیکل یہ انتخابی نشان ہیں ان کو سہارا بنا کر ایک دوسرے کے خلاف ایسے تند وتیز الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں جس سے ”محاذ آرائی“ کی فضا پیدا ہو اور کشیدگی کا تصور ابھرے لیکن ایسے لگتا ہے کہ انتخاب میں حصہ لینے والوں کی اکثریت ”ارد گرد لگی آگ“ کی تپش محسوس نہیں کر رہی۔یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ زاری نہیں کی جاتی۔ یہ اچھی جمہوری روایت ہے کہ لوگ افراد نہیں سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کو رواج دیا تھا اب اس کو تقویت مل رہی ہے مگر دودھ کے ساتھ مینگنی کیوں؟ ایک توبڑی تشویشناک بات ہے کہ تین بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہیں انتخابی عمل سے دور رکھ کر یکطرفہ فیصلہ کیا جارہا ہے ۔دوسری طرف چاہئے تو یہ تھا کہ اس بات کا ادراک کرکے انتخابی فضا خوشگوار اور بہتر بنائی جاتی ”نیا پاکستان“ کے نعرہ کے ساتھ تندوتیزالفاظ استعمال کئے جارہے ہیں۔ عمران خان نے نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے ہیں اور ان میں 80 فیصد پہلی بار ”سیاسی اکھاڑے“ میں اترے ہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ جمہوری اقدار و روایات کو اور مضبوط کرتے اس کے برعکس ”گالم گلوچ“ شروع ہوگئی ہے۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ برسراقتدار آ کر ان کے مسائل کس طرح حل ہوں گے؟ سیاسی جماعتیں کیا منشور رکھتی ہیں؟ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ بلے سے شیر کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہاجارہا ہے کہ شیر مار کر اس کے تکے کھائے جائیں گے۔ ایساضرور کریں مگر کسی عالم دین سے تو پوچھ لیں کہ شیر کا گوشت حلال ہے یا نہیں؟ اس طرح کی باتیں مشرقی اخلاقی اقدار کی عکاسی نہیں کرتیں۔ جب بھٹو صاحب نے سیاست کا آغاز کیا تو ”ہے جمالو“ کلچر متعارف کرایاان کے کارکن جیالے کہلائے جواب میں میاں نواز شریف جب پیپلزپارٹی کے مدمقابل آئے تو مسلم لیگی کارکن ”متوالے“ بن گئے۔ ”میاں دے نعرے وجن گے“ کا سلوگن سامنے آیا۔ اس دور میں ایک نوجوان رہنما شیخ رشید نے انتخابی ماحول میں ”غلط الفاظ“ استعمال کرکے بدمزگی پیدا کی لیکن جلد ہی انہیں سٹیج سے فارغ کر دیا گیا۔ اب نہ جانے کیوں وہ پیر صاحب پگارو کی نقل اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کا بھلا ہو جس نے انہیں سیاسی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔یہ درست ہے کہ انتخابی سیاست کے حوالے سے ہمارا ماضی کوئی زیادہ درخشندہ نہیں لیکن کچھ تو اصلاح احوال کرنی چاہئے۔ اگرچہ اب ”ہونٹ اور پیالی“ میں فاصلہ کم رہ گیا ہے تاہم اگر رویئے تبدیل کرلئے جائیں تو11مئی کے روز اس کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے۔
جمہوریت کا تو یہ حسن ہے کہ آپس میں ”تصادم ۔ کشیدگی“ اور ”محاذآرائی“ کا گزر نہیں ہوتا اس نظام میں مڑ کر دیکھنا منع ہے جو ایسا کرے وہ پتھر کا ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں ”خونی رشتے“ اس حسن کے ساتھ آمنے سامنے ہوتے ہیں کہ ان رشتوں کا احترام اسی طرح برقرار رہتا ہے۔ دور نہیں یہ ہمارے پڑوس کی بات ہے کہ گوالیار کے راجہ سندھیا اپنی والدہ مہارانی کے مدمقابل امیدوار بنے۔ صبح انتخابی مہم پر روانہ ہونے سے قبل اپنی ماں کے چرن چھوتے اور مہارانی گنگا جل کا سایہ دے کر بیٹے کو رخصت کرتیں اوراس کے بعد خود اپنی انتخابی مہم پر روانہ ہوتیں۔ راجہ الیکشن جیت گئے تو ماں نے روایتی انداز میں بیٹے کا محل کے باہراستقبال کیا۔ ایسی بہت سی ”شاندار مثالیں“ موجود ہیں۔ پاکستان میں بھی بھائی، بھتیجے، سالے، کزن آپس میں مدمقابل رہے ہیں لیکن جمہوریت کے مکمل حسن سے ابھی آراستہ نہیں کیاجاسکا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن ایک بڑی اور بنیادی وجہ جاگیردارانہ نظام اور اس کی ذہنیت ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ملک میں سیاست کو تجارت بنا دیا گیا ہے جو منتخب ہوتا ہے وہ چند سال میں لکھ پتی سے ارب پتی بن جاتا ہے اور یہی تجارتی رویہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے نظام میں کرپشن سرایت کرتی گئی ہے کہ اب ناسور بن گئی ہے۔
محب وطن حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ عام انتخابات نگران حکومت الیکشن کمیشن ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک آزمائش اور امتحان بن گئے ہیں۔ اس وقت نہ صرف تدبر، تحمل برداشت کی ضرورت ہے بلکہ انتخابی فضا کو ہر قیمت پر پرامن بنانا بھی ہے۔ ذرا سی غلطی سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دے گی۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس خدشہ کا ا ظہار کر رہے ہیں کہ ”ان دیکھے ہاتھ“ وطن کی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ نئے پاکستان اورپرانے پاکستان کی بات ضرور کیجئے لیکن وطن کی سالمیت و استحکام کے لئے بھی آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جگرمراد آبادی کا یہ شعر سب کی نذر:
ہمت نہ ہار دے کوئی منزل کے سامنے
ایسا بھی بدنصیب کوئی اے جگر# نہ ہو
تازہ ترین