• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی اینی میشن انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتا ہوں

’’ اپنی مٹّی، دھرتی ،اس پاک وطن سے دُور رہنے کی اذّیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے،جسے تلاشِ معاش پر دیس لے جائے۔ کہنے کو تو بیرونِ مُلک بڑی سہولتیں، آسانیاں اور آرام میسّر ہوتا ہے، لیکن ایسا آرام کس کام کا کہ گھر لَوٹنے پر ماں کا چہرہ ہی نظر نہ آئے، ایسی سہولت کس کام کی کہ فاسٹ فوڈ زپر زندگی گزرے، تیج تہواروں پر بہنوں کی ہنسی سُنائی دے، نہ دوستوں کا ساتھ نصیب ہو، باپ کی شفقت بَھری ڈانٹ ہو، نہ بھائی کاپیار۔

میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی بھی پاکستانی خوشی سے اپنا مُلک نہیں چھوڑتا، کسی کو بھی اپنوں سے دُور،دیارِ غیر میں رہنا اچھا نہیں لگتا۔ ’’دُور کے ڈھول سُہانے ‘‘ کے مصداق یہ وطن میں رہنے والے ہی ہیں، جنہیں پر دیس میں بسے پاکستانیوں کی زندگی جنّت نظیر لگتی ہے۔ لیکن جب اسی ’’جنّت‘‘ میں رہنا پڑے، تو دماغ درست ہوجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مَیں پاکستان کی اینی میشن انڈسٹری اس قدر مضبوط و مستحکم دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس سے وابستہ نوجوان تلاشِ معاش کے لیے اپنا شوق پسِ پُشت ڈال کر دیارِ غیر میں نہ جا بسیں۔ مجھے بچپن ہی سے پینٹنگ، اسکیچنگ، آرٹ سےجنون کی حد تک عشق تھا، لیکن معاشی بد حالی کے سبب کبھی ہوٹلوں، تو کبھی دُکانوں میں نوکری کرنی پڑی ، پھر بالآخر روزی ، روٹی کمانے سعودی عرب آنا پڑا۔

یہاں آنے کے بعد اکیلے پن کی وجہ سے مَیں اس قدر ذہنی دباؤ کاشکار ہوگیا کہ اسکیچنگ اور ڈرائنگ چھوڑ ہی دی ، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، تب ہی مَیں نے ایک نئے ڈھنگ سے اپنے شوق کو زندہ کیا اور اب وہی میری پہچان ہے۔‘‘ یہ الفاظ ہیں، پاکستانی مِنی ایچر آرٹسٹ، فرحان فیصل کے، جو اپنے تخلیقی ذہن کی بدولت مِنی ایچر آرٹ کو ویڈیوز کا رُوپ دے کر انتہائی پُر کشش اور دیدہ زیب بنارہے ہیں۔

فرحان نے اس کام کی با قاعدہ تربیت حاصل کی ہے اور نہ ہی ان کے پاس کسی آرٹ اسکول کی ڈگری ہے، مگرسچّی لگن ، ایمان داری اور محنت کی بدولت وہ نہ صرف اینی میشن انڈسٹری میں اپنے قدم مضبوط کر رہے ہیں، بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کر رہے ہیں۔

وہ اس فیلڈ میں کیسے آئے، مِنی ایچر آرٹسٹ کیسے بنے،جو افراد اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں ،انہیں کیا کرنا چاہیے؟انہی سوالات کے جوابات کے لیےہم نے گزشتہ دنوں فرحان فیصل سے تفصیلی بات چیت کی، جو نذرِ قارئین ہے۔

س:ابتدائی تعلیم وتربیت کے متعلق کچھ بتائیں، کہاں سے تعلق ہے، والدین کیا کرتے ہیں، بہن بھائی کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

ج:میرا تعلق پٹھان فیملی سے ہے، مگر 1960ء سے ہمارا خاندان کراچی ہی میں رہائش پذیر ہے۔ہم 8 بھائی، بہن تھے،لیکن 2003ء میں بڑے بھائی کے انتقال کے بعد اب مَیں بس اکلوتا بھائی ہوں۔ والد کی عبد اللہ شاہ غازی کے مزار میں کریانہ کی دُکان تھی، جسے بھائی کے انتقال کے بعد کرائے پر دے دیا گیا، مگر حکومت نے تجاوزات قرار دے کر فوری منتقلی کا حکم دیا اور تب سے تا حال روزگاربحال نہ ہو سکا۔ مَیں نے شیریں جناح کالونی کے ایک نجی اسکول سے میٹرک، بحریہ فاؤنڈیشن کالج سے انٹر اور بعد ازاں بطور پرائیویٹ امید وار بی کام کیا۔

تعلیم کے ساتھ ہی ملازمت بھی شروع کر دی کہ گھر چلانا بھی ضروری تھا۔ انٹر کے بعد ہی سے کبھی کسی دُکان، تو کبھی کسی ہوٹل میں چھوٹی موٹی ملازمت کرتا رہا۔ پھر مجھے ایک بریانی سینٹر میں بطورکیشیئر ملازمت مل گئی، جہاں مَیں نے پانچ برس کام کیا۔

مگر میری محدود کمائی سے اتنے بڑے کنبے کی گزر بسر نہیں ہو پا رہی تھی، منہگائی بھی دن بہ دن بڑھ رہی تھی، تو مَیں نے بیرونِ مُلک جانے کی کوشش کی اور بہن کے پاس سعودی عرب آگیا اور اب یہاں ایک نجی کمپنی کے انتظامی شعبے میں ملازمت کر رہا ہوں۔

س:بچپن ہی سے آرٹسٹ بننے کا شوق تھا یا کسی اور فیلڈ میں جانا چاہتے تھے؟

ج:بچپن میں مجھےفاسٹ بالر بننے کا شوق تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہو کر مُلک کا نام روشن کرنا چاہتا تھا۔

ہاں، ساتھ ہی آرٹ سے بھی بہت دل چسپی تھی، رنگوں سے کھیلنا، نِت نئے ڈیزائن بنانا بہت اچھا لگتا تھا اور انٹر تک پہنچتے پہنچتے مَیں نے اسکیچنگ شروع کر دی تھی ۔

س:آرٹسٹ بننے کےاس سفر سے متعلق کچھ بتائیں؟ اس فن کی با قاعدہ تربیت حاصل کی یا…؟

ج:یہ 2007ء کی بات ہے، مَیں اُن دنوں بریانی سینٹرمیں کیشیئر تھا۔ میرا ایک دوست عبدل ، جو میرا پڑوسی بھی تھا،وہ انڈس ویلی اسکول آف آرٹس کی کینٹین میں کام کرتا تھا۔ اُس نے ایک روز میری اسکیچ بُک وہاں کے پرنسپل کو دِکھائی اور کہا ’’میرے دوست کی صلاحیتیں نکھارنے میں مدد کریں‘‘ پرنسپل صاحب میرے کام سے بہت متاثر ہوئے کہ بنا سیکھے ہی کام میں اتنی مہارت ونفاست ہے۔ تو انہوں نے مجھے ڈپلوما کرنے کا مشورہ دیا اور میرے معاشی حالات کے پیشِ نظر فیس بھی انتہائی کم کروادی۔اس طرح میرےکام میں نکھار آیا۔ لیکن ڈپلوما کرنے کے بعد مَیں اس فن میں آگے کچھ نہیں کر سکا کہ مجھے تلاشِ معاش کے لیے سعودی عرب آنا پڑا۔

س:منی ایچر آرٹ میں دل چسپی کب اور کیسے ہوئی؟ غالباً پاکستان میں اس کا آغاز آپ ہی نے کیا ہے؟

ج:جب پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا اور یہاںآئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے تھے،اُن دنوں جہاں میں نوکری کرتا تھا، وہاں میرے ساتھ شمالی افریقا کا ایک باشندہ بھی تھا۔ اس کے سامنے جب بھی پاکستان کا ذکر آتا تو وہ مذاق اُڑاتاکہ ’’وہاں تو خود کش دھماکے ہوتے ہیں، وہاں دیکھنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے وغیرہ وغیرہ…‘‘ تب ہی مَیں نے دل میں تہیّہ کیا کہ اسے اپنے مُلک کے حقیقی چہرے،خُوب صُورتی اور اصل ثقافت سے رو شناس کروا ؤں گااور بس،اسی مقصد کے لیے مَیں نے دوبارہ پینٹنگ، اسکیچنگ شروع کی، جس میں اپنے وطن کی خُوب صورتی،تہذیب وثقافت کو نمایاں کرنا شروع کیا۔ ساتھ ہی پیسے جمع کرکے ایک ڈی ایس ایل آر بھی خریدا کہ جب چھٹیوں میں پاکستان جاؤں گا تو شمالی علاقہ جات کا حُسن کیمرے میں محفوظ کرکے اپنے ساتھی کو دکھاؤں گا۔

اس طرح مَیں نے لینڈ اسکیپ فوٹوگرافی کا آغاز کیااور سعودی عرب واپس لَوٹ کر اسے تصاویر دکھائیںتو وہ اتنا حیران اور متاثرہوا کہ کہنے لگا ’’اب مَیں بھی پاکستان گھومنے جاؤں گا۔‘‘وہی تصاویر مَیں نےانٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر بھی اَپ لوڈ کیں،جنہیں بہت سراہا گیا، تو مَیں نے سوچا کیوں نہ مائکرو فوٹوگرافی پر کام شروع کیا جائے کہ یہ ایک محنت طلب، مگر منفرد کام ہے۔

اس کے لیے مَیں نے انٹرنیٹ سے مائکرو فوٹوگرافی اور مِنی ایچر آرٹ سے متعلق آگہی حاصل کی، یو ٹیوب سے فوٹوشاپ کا استعمال سیکھا۔ نیز، پاکستان سے سستے داموں کھلونے منگوائے اور بس کام شروع کردیا۔

س:اس آرٹ کو ویڈیو فارم میں پیش کرنے کا خیال کیسے آیا؟

ج:اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج کل پوری دنیا ہی میں مِنی ایچر آرٹ بہت فروغ پارہا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا آرٹسٹ مائکرو فوٹوگرافی پر کام کر رہا ہے، تو خود کو منوانے اور اپنے کام میں انفرادیت لانےکے لیے مَیں نے اسے ویڈیو کی صُورت دی، جس سے اس فن کی خُوب صُورتی کئی گُنا بڑھ جاتی ہے اور یہ انتہائی پُر کشش لگتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اس فیلڈ میں وہی شخص کام یاب ہوسکتا ہے، جو تخلیقی ذہن کا مالک ہوکہ فن کاروں کی کمی نہیں، بس ایک ہی کام منفرد انداز میں کرنے کا گُر آنا چاہیے، تب ہی آپ کے کام کی قدر بڑھتی ہے۔

س:کوئی بھی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے ذہن میں کیا سوچ کار فرما ہوتی ہے؟inspiration کہاں سے لیتے ہیں؟

ج:میرے زیادہ تر پراجیکٹس میرے ماضی کے عکّاس ہیں، جنہیں مَیں ماڈرنائزڈ کرکے پیش کرتا ہوں۔ جیسے، مسالا فیکٹری میں کام کرتے لوگ، پارکس میں کھیلتے بچّے،دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھوتی خواتین وغیرہ۔ علاوہ ازیں، کلائنٹس کے تھیم، اُن کی پراڈکٹ یا ڈیمانڈ کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے بھی کام کرتا ہوں یا اگر کہیں باہر کوئی منظر آنکھوں کو بھا جائے، دل کو چُھولے توفوراً اس کا اسکیچ یا تصویر بنالیتا ہوں پھرگھر آکے کھلونوں کی مدد سے اسے re-create کرکے کمپوز کرتا ہوں۔

س:ایک پراجیکٹ مکمل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟

ج:اِسٹل فوٹو گرافی میں تقریباً دو دن لگ جاتے ہیں۔ دن میں اگر تین گھنٹے کام کروں، تو ایک دن کلر ٹھیک کرنے میں لگتا ہے کہ مَیں پکچرز ایڈٹ نہیں کرتا، صرف کلرنگ ٹھیک کرتا ہوںاور ایک دن کھلونوںکی جن کی مدد سے ویڈیو زبناتا ہوں، کمپوزیشن میں لگتا ہے۔

مجھے چوبیس فریم پرسیکنڈ کے حساب سے کام کر نا پڑتا ہے، اگر ایک ویڈیو 45سیکنڈز کی ہےتو مجھے تقریباً گیارہ سو فریمز بنانے پڑیںگے، جن میں رنگ اور روشنی کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔

واضح رہے، یہ سارے فریم ایک تصویر نما ہوتے ہیں، جنہیں یک جا یا merge کرکے ویڈیو کی صُورت دی جاتی ہے۔ اس طرح ایک پراجیکٹ کی تکمیل میں قریباً دس، بارہ دن لگ جاتے ہیں۔

س:کسی سے متاثر ہیںاور ٹیم وَرک کرتے ہیں یا کسی کمپنی سے منسلک ہیں؟

ج:آج کا دَور سوشل میڈیا کا ہے، جہاں سب کچھ بس ایک کِلک کی دُوری پر ہے، تو ایسے میں بنا کسی اشتہارکے آپ کا کام ہی آپ کی مارکیٹنگ کرتا ہے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ مَیں کسی کمپنی سے منسلک ہوں،نہ ہی میری کوئی ٹیم ہے ، بس انفرادی طور پر ہی کام کرتا ہوں۔

س:اپنے آرٹ کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں اور کیا آپ کاکام معاشرے میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے؟

ج:مَیں اپنے کام کے ذریعے اپنے مُلک کا مثبت چہرہ، اس کی تہذیب و ثقافت، یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی دنیا کے سامنے لانا چاہتا ہوںاور اللہ کا شُکر ہے کہ بہت حد تک اس میں کام یا ب بھی ہو ا ہوں۔

میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کا لمحہ وہ تھا، جب لاہور کے ایک نفسیاتی اسپتال سے میرے پاس ایک میسیج آیا کہ ’’ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے مریضوں کو آپ کی ویڈیوز دِکھاتے ہیں کہ ا س طرح اُن کے ذہنوں پرمثبت اثرات مرتّب ہورہے ہیں ‘‘، تو میرے لیے اس سے بڑھ کر خوشی اور کام یابی کیا ہو سکتی ہے کہ میرا فن ذہنوں کو تسکین پہنچا رہا ہے۔

س:کیا اس کام سےاتنی کمائی ہو جاتی ہے کہ بآسانی گھر چل سکے؟

ج:پاکستان میں اینی میشن آرٹسٹ بہت کم ہیں، تو اگر آپ واقعی تخلیقی ذہن کے مالک ہیں تو ا س فن سے اچھی خاصی کمائی حاصل کر سکتے ہیں۔

س:خود کو اگلے پانچ برسو ںمیں کہاں دیکھتے ہیں اور کس مقام تک پہنچنے کے خواہش مند ہیں؟

ج:فی الحال تو مجھےوالٹ ڈِزنی اینی میشن کورس کے لیےسنگا پورجانا ہے، جہاں سے مجھے اپنی اِسکلز مزید نکھارنے کا موقع ملے گا۔ویسے تو مَیں کب کا جا چُکا ہوتاکہ وہاں سے اجازت نامہ آگیا تھا، لیکن کورونا کی وجہ سے نہیں جا سکا۔ خیر، اب اِن شاء اللہ جلد ہی جاؤں گا، پھر وہاں سے واپس پاکستان جانا چاہتا ہوں، تاکہ ایسے افراد جو بیرونِ مُلک جانا افورڈ نہیں کر سکتے یا جو مُلک میں ہوتے ہوئے بھی مِنی ایچر آرٹ نہیں سیکھ سکتے، اُن کی تربیت کر سکوں۔ مَیں اپنے مُلک کے نوجوانوں کو اینی میشن کا کام سکھانا چاہتا ہوں ، مَیں خود کلاسز ارینج کرواؤں گا۔

مجھے یقین ہے کہ اگلے پانچ برس میں، مَیں پاکستان کی اینی میشن انڈسٹری پر راج کروں گا۔مَیں آنے والے وقت میں خود کو پروفیشنل ، تجربہ کار اینی میشن، مِنی ایچر آرٹسٹ کے رُوپ میں دیکھ رہا ہوں۔

س:زندگی کا مقصد اور دیرینہ خواب کیا ہے؟

ج:پاکستان میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے، ہر دوسرا نوجوان تلاشِ معاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہےاور مَیں بھی انہی نوجوانوں میں سے ہوں۔مَیں نے بڑے ہاتھ پاؤں مارے،لیکن معقول نوکری نہ ملی۔ مَیں پاک دھرتی کا بیٹا، کراچی کا باسی ہوں، جانتا ہوں کہ یہاں کی نسلِ نو روزگار کے حوالے سے کن کن مسائل کا سامنا کرتی ہے۔

لہٰذا، میرا دیرینہ خواب بس یہی ہے کہ اپنے مُلک واپس جاکر ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ بناؤں ،جہاں نوجوانوں کو فوٹوگرافی، مارکیٹنگ، مِنی ایچر آرٹ کی تعلیم انتہائی کم قیمت پر دی جائےاور جو بچّے فیس افورڈ نہ کر سکیں، انہیں بلا معاوضہ کام سکھایا جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں نےجو خواب دیکھا ہے، اس کی تعبیرآسان نہیں، پر نا ممکن بھی نہیں ہے۔ فی الحال میری کوشش ہے کہ سنگاپور سے کورس کرنے کے بعد کراچی جاکر ایک سیشن کروں، جس میں اس فن سے دل چسپی رکھنے والوں کی رہنمائی کر سکوں۔

س:جو لوگ اس فیلڈ میں آنا چاہتے ہیں ،انہیں کیا مشورہ دیںگے؟

ج:اس فیلڈ میں بہت پیسا ہے، خاصی معقول کمائی ہوجاتی ہے۔اب چاہے وہ مِنی ایچر فوٹوگرافی ہویا وَیڈنگ فوٹوگرافی، اینی میشن یا اس کی دیگر فیلڈز ، مگر ایک بات ذہن میں رکھیں کہ جو بھی کام کریں، پوری ایمان داری سے کریں۔ کچھ لوگ موبائل کیمرے سے ویڈیو یا تصاویر بنا کر مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں۔

اس طرح کوالٹی وَرک نہیں ہو پاتا، پھر کلائنٹ کا بھروسا بھی اُٹھ جاتا ہے۔ سو، اگر آپ اینی میشن، فوٹو گرافی کی فیلڈ میں قدم رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ایک اچھی کمپنی کا ڈی ایس ایل آرخریدیں ، کیمرا اینگلز کے بارے میں جانیں، رنگوں سے متعلق معلومات بڑھائیں پھر کام شروع کریں۔ یاد رکھیں، غیر معیاری کام سے آپ ایک بار تو منافع کما لیں گے، بار بار نہیں۔

تازہ ترین