• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس جب کسی قانون شکن، جرائم پیشہ گروہ کو گرفتار کرتی ہے تو عام طور پر اُسے کسی مخصوص گینگ کے نام سے منسوب کرکے ایف آئی آر کا اندراج کیا جاتا ہے۔ ہمیشہ ایسے قانون شکن گروہ کا ایک سرغنہ بھی ہوتا ہے۔ ایف آئی آر میں گینگ کے سرغنہ کا نام نمایاں طور پر ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ مقدمے کی اہمیت واضح ہو اور ملزمان پر قانون کا شکنجہ مضبوطی سے کسا جا سکے۔ عدالتی چارہ جوئی میں آسانی پیدا ہو، جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ دینا ممکن بنائی جا سکے۔ مقدمے کی میڈیا تشہیر کی خاطر بحکم فلاں فلاں ایس ایچ او صاحب کارروائی عمل میں لائی گئی، کے الفاظ سے خبر مرتب کرکے بڑی بڑی شہ سرخیوں سے اخبارات کی زینت بنانے، عوام کی توجہ حاصل کرنے کے یہ سب گُر اگرچہ دہائیوں پُرانے ہیں لیکن دورِ جدید میں بھی یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ کیس کتنا ہی واضح اور ثبوت کتنے ہی آشکار کیوں نہ ہوں، دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں نے یہ سب مناظر خود سے دیکھے اور سنے ہوں، تمام دلائل کے دستاویزی ثبوتوں کے انبار لگے ہوں لیکن مملکتِ خداداد پاکستان میں انصاف کے پیمانے ہمیشہ دہرے ہی نہیں بلکہ اب تو تہرے ہیں پھر بھی ہم انصاف کی آس اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب قانون کا بول بالا ہو۔ کارِسرکار میں مداخلت انصاف پسند دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ گرفت، سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن ایک وہ ہیں، ایک ہم کہ جب تک کارِ سرکار میں مداخلت نہ کریں، توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی، حکومتی مشینری جام اور سرکاری املاک پر حملہ نہ کریں، گھیراؤ جلاؤ نہ کریں تو کار سیاست میں اقتدار کا حصول صرف دیوانے کا خواب ہی رہ جاتا ہے۔ یہاں تو اب صورتحال یہ ٹھہری ہے کہ بعض وکلاء کھلی عدالتوں میں جج صاحبان کے گریبانوں تک اپنے ہاتھ لے جاتے ہیں، غلیظ زبان کا تبادلہ ہوتا ہے پھر بھی انصاف کا بول بالا ہی رہتا ہے کہ ملزمان سرعام دندناتے، مدعی اپنی عزتیں بچاتے، چھپتے چھپاتے رہتے ہیں۔ ہماری حالت تو بہت پتلی ہے کہ کسی قسم کا تبصرہ بھی قابلِ گرفت قرار پاتا ہے۔ قانون جب اپنا راستہ خود لیتا ہے تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے کہ پہلے حکومتی پراسیکیوٹر کسی مقدمے کی پیروی کرے، ملزمان کے خلاف ٹھوس دلائل بھی دھڑلے سے دے، ملزمان اشتہاری بھی قرار پائیں اور ضمانت پر بھی ہوں تو پھر جب چھ سال بعد قانون کی کایا ہی پلٹ جائے اور انصاف کی نئی تاریخ لکھی جائے پھر یہی پراسیکیوٹر بریت کی درخواست میں رَل مِل جائے اور کہے کہ اِنہیں مرکزی ملزم سے کوئی شکوہ ہے، نہ شکایت اور بریت پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا تھا جس سے کچھ نہیں نکلنا، صرف عدالت کا وقت ضائع ہوگا اور جلدی میں فیصلہ ایسا سنا دیا جائے کہ صرف مرکزی کردار بری ہو جائے اور کرسی صدارت کو استثنیٰ حاصل ہو، شریکِ جرم ساتھیوں پر جرم کی نوعیت برقرار رکھی جائے، آخر ایسا کیوں؟ آج کے انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ مقدمہ سرے سے ہی خارج قرار دے دیا جاتا یا سب شریکِ جرم قرار پاتے۔ زمانہ بدل گیا مگر ہم نہ بدلے، وہی حرکتیں، وہی عداوتیں، وہی نفرتیں، وہی گھسے پٹے بیانیے ہم کہ ٹھہرے نسلی کاہل، نااہل، گھر بیٹھے دنیا فتح کرنے کے شیخ چلی کے خواب دیکھنے والے، نہ ہم نے بدلنا ہے، نہ ہمارے حکمرانوں نے۔ اب تو سب کچھ 47سے بھی ابتر نظر آنے لگا ہے کہ حسد کی آگ میں ایسے جلتے ہیں کہ کسی کے چلتے کاروبار کی دل میں ایسی آگ لگتی ہے کہ چاہے اپنا سب کچھ برباد ہو جائے لیکن کسی کا چلتا کاروبار بھی باقی نہ بچے، اب آپ ہی دیکھئے کہ ہم نے غداروں کی چلتی دکان کا بھی ایسا بیڑا غرق کردیا کہ اصلی و نقلی غدار کی پہچان کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ بالکل ایسے جیسے کبھی کسی نے خوشاب میں امین ڈھوڈا کے نام سے خالص دیسی گھی سے سوہن حلوے کی ایک دکان کھولی ہو گی، اب آپ خوشاب چلے جائیں، چاروں طرف امین ڈھوڈا کے بورڈ لگے نظر آتے ہیں اور ہر کوئی کسی ایک بابے کی تصویر لگائے اصلی ہونے کا دعویدار ہے۔ شہر کے مکینوں کو بھی اب معلوم نہیں کہ اصلی امین ڈھوڈا کس کا ہے، بالکل ایسے ہی لفظ غدار کی حرمت بھی ہم نے پامال کردی کہ اتنا جھوٹ بولو کہ ’’سچ‘‘ لگنے لگے۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ ملاوٹ شدہ مال کھانے سے قوم کا ہاضمہ کس قدر خراب ہو رہا ہے اور اِس کا ہماری قومی صحت پر کتنا بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ نت نئی ذہنی، جسمانی، معاشی و سیاسی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ کہتے ہیں صحت مند قوم سے ہی توانا ذہن پیدا ہوتے ہیں۔ بیماریوں کی شکار قوم کسی دشمن وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ یہ کھیل تماشوں میں خوش رہنے والے لوگ صدیوں پہلے بھی برباد ہوئے تھے، اب بھی بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اب تو ہمارے کشمیر کی حالت بھی بیس ریال کے نوٹ سے زیادہ نہیں رہی۔ جس کی کل مالیت شاید دو ڈالر سے بھی کم ہو۔ جب بیس ریال کے نوٹ پر بنے نقشے پر ”کشمیر آزاد“ ہو سکتا ہے تو پھر ہمیں اندازہ لگا لینا چاہئے کہ ہماری کل حیثیت کیا رہ گئی ہے اور ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ جو معاشرہ انتشار در انتشار کا شکار ہو جائے جہاں اصلی و نقلی کی پہچان باقی نہ رہے، لوگ روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں ہم جیسے لکھاری گروہوں میں تقسیم ہو جائیں تو پھر تمام بیانیے ناکام ہو جاتے ہیں۔ پھر یہی ہوتا ہے کہ اقامے والے دھر لئے جائیں گے، سول نافرمانی کرنے والے چھوڑ دیے جائیں گے، دوہری شہریت والوں کو پارلیمنٹ میں لانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے گی اور سپریم کورٹ پر گندے کپڑے لٹکانے والے بری کر دیے جائیں گے تو پھر کیا ہوگا؟

تازہ ترین