• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جو بھی وزیراعظم بر سر قتدار آیا وہ یکسوئی کام نہیں کر سکا، اخلاص کے باوجود سول وزیراعظم وہ کچھ نہ کرسکا جس کا اُس نے عوام سے وعدہ کیا تھا،پھرایساوزیراعظم اقتدار کی غلام گردشوں میں اس طرح اُلجھ جاتاہے کہ اپنے محوری مسائل کے باوصف عوامی مسائل کو سلجھانےکے وہ تما م جوہر وہنر اُس سے جاتے رہتے ہیں جس کا اظہار وہ قبل ازیں پورے طمطراق سے کیا کرتاتھا۔تاہم یہ بھی عجیب عالم ِ بے خودی ہے کہ اقتدارمیں ایک سے زائدبار آنے والوں پر بھی یہ راز نہ کھل سکا کہ اس کی اساسی وجہ جمہوریت کا اپنے روح کے مطابق نافذ نہ ہوناہے۔وہ کوتاہ نظر تھے یا پھر موقع پرست، کڑواسچ مگر یہ ہے کہ آزادی کے بعد تا امروز کسی حکمران نے حقیقی جمہوریت کی جانب وہ اُٹھان نہیں لی جو جمہوری نظام کا تقاضا ہے۔موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان کی نیت میں ہمیں دیگر کی طرح فتورنہیں بلکہ کافور محسوس ہوتاہے لیکن اُن کےآئے روز بدلتے موقف اُن کے وژن کو نہیں بلکہ اُس بےچینی کو ظاہر کررہے ہیں جو جمہوری نظام کے آلودہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں لاحق ہے۔مدینے کی ریاست سے لیکر چین جیسے نظام کی باتیں دراصل اُن کے مخمصے کو عیاں کررہی ہیں۔انتخابات سے قبل اور اقتدارکے سنگھاسن پر براجمان ہونےکے بعد آں جناب انگلینڈ ،ہالینڈاورایران کے نظام کو روبہ عمل لانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں،تاہم مدینے کی ریاست کا نہ صرف وہ آج تک گاہے گاہے ذکرِ خیر کرتے ہیں بلکہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے باگ ڈور سنبھالنے کے بعد گویا اسلامی جمہوریہ پاکستان مدینے کی ریاست بن چکاہے۔اس بات کی تائیدونصرت مولانا طارق جمیل وزیراعظم سے بڑھ کر کرتے رہے ہیں۔ان دنوں ملک میں یہی موضوع مشقِ سخن ہے،سوال کیا جارہاہے کہ اگر وزیراعظم معیشت یا قومی مجرموں کوفوری سزادینے کے تناظر میں چینی نظام کی خواہش رکھتے ہیں،تو کیا اُس مدینے کی مثالی ریاست میں معیشت یا مجرموں کو فوری سزادینے کے ایسے قوانین نہیں تھے، جو چین کے نظام میں ہیں؟اگرتھے بلکہ بلا تشکیک وہ نظام مکمل ضابطہ حیات لئے ہوئےتھا،تو پھر کیاریاست مدینہ کی بات صرف اس لئے کی جاتی رہی کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر عوام کے جذبات سے کھیلنا آزمودہ فارمولہ ہے؟ چنانچہ یہ سوال برحق ہے کہ ریاست مدینہ میں چین کے کمیونسٹ نظام کی کتنی گنجائش ہے،بلکہ اب تو جمہوریت پسند لوگ چین میں جاری طرزِ حکمرانی کو کسی بھی طور کمیونزم ماننے کیلئے تیارنہیں۔ ماؤزے تنگ کی قیادت میں برپا انقلاب کے نتیجے میں یکم اکتوبر 1949ء کو عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا،درحقیقت پاکستان ہی کی طرح چین کے غیر ہموار تاریخی ارتقا نے معاشرے میں تضادات پیدا کیے تھے۔ معروف تاریخ دان اور ماؤ کی سوانح حیات تحریر کرنے والے الیگزنڈر پینٹسو کے مطابق ’’ماؤ غیر اعلانیہ آمر تھے جو چار کروڑ افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے‘‘۔ ہمارے سامنے البتہ آج ترقی یافتہ چین ہے ،اس کیلئے چین کے حکمران کیا کرتے رہے ہیں یا کررہے ہیں ،اس سے قطع نظر ہمارا کہنا یہ ہے کہ مورخ الیگزنڈرپینٹسوکے بیان کردہ چارکروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تعداد اگر ہمارےلئے قابل قبول نہ بھی ٹھہرے تو بھی لاکھوں لوگ تہہ تیغ ہوئے تھے۔چونکہ مدینے کی ریاست میں ایسا قتل عام قطعی نہ ہوا تھا بلکہ تلوار سے زیادہ سیرت وکردار نے لوہا منوایاتھا شاید اس لئے اب وزیراعظم اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ جب تک چین ہی کی طرح پاکستانی خائنوں کو سزانہیں دی جاتی، ملک میں تطہیر کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم مائوزے تنگ ہی کی طرح کی پوزیشن میں ہیں،دوئم تاریخی قتل وغارت گری کے باوجود مغرب کی نوآبادی رہنے والے چین نے جس طرح دنیا میںخود کو منوایا،کیا موجودہ حکومت ایسے جوہررکھتی ہے!! ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم دعوئوں سے ہی کائنات تسخیر کرنے کےعادی بن چکے ہیں۔ہمارا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ ہم نے دنیا کے دوسری سپرپاور کمیونسٹ سوویت یونین کے15ٹکڑے کئے،مگر قابل افسوس یہ امر ہے کہ ہم نے جس کے ٹکڑے کئے، اُس کی گندم آج ہمارے دسترخوان پر ہماری بےبسی کامذاق اُڑارہی ہے اور جس نےہمارے دو ٹکڑےکئے، اُس کو گویا ہم کشمیر طشتری میںرکھ کر پیش کرچکے ہیں ،ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہم سےجداہونےوالابنگلہ دیش آج ترقی کی اُس شاہراہ پر ہے جس تک پہنچنے کیلئے بقول ماہرین پاکستان کو 10سال درکارہیں ،اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جب ہم دس سال میں بنگلہ دیش تک پہنچیں گے تو اس دوران بنگلہ دیش مزید کتناآگےجاچکاہوگا اور ہمیں اس تک پہنچنے کیلئے مزید کتنےسال درکار ہونگے۔کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم معروضی حقائق کی روشنی میں ایسی بات کریں جن پر عمل بھی کرسکیں، نہ جانےہم کب بالغ ہونگے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین