• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابقہ مغربی پاکستان اسمبلی کے ایک معزز ممبر اس وقت کی سیاسی صورتحال کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے اکثر اسمبلی میں ایک شعر پڑھا کرتے تھے کہ ”ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ شعر ہمارے ملک کی آج کی صورتحال کے بارے میں کہا گیا تھا۔ چاروں طرف دیکھتے ہیں تو بڑے دکھ سے یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ہماری سیاست میں کوئی ہیوی ویٹ سیاسی شخصیت باقی نہیں رہی۔ ہر طرف بونوں کا راج ہے۔ یہ بات کڑوی ضرور ہے مگر سچی بھی لگتی ہے کیونکہ آج کی سیاست میں بھٹو کو کہاں تلاش کریں، خان عبدالولی خان کو کہاں تلاش کریں، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطا اللہ مینگل اور سردار خیر بخش مری جیسے سیاستدان کہاں تلاش کریں اور میاں افتخار الدین اور میاں محمود علی قصوری کو کہاں تلاش کریں؟ اگر صرف سندھ کے حوالے سے بات کریں تو جی ایم سید اور کامریڈ حیدر بخش جتوئی کو کہاں تلاش کریں۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی تو سارے برصغیر میں ایک لاثانی قسم کے سیاستدان) (Special تھے، وہ کلکٹر تھے جہاں سے وہ استعفیٰ دے کر سیاست میں آئے اور سندھ میں ہاری تحریک کی قیادت کی اور آخری دم تک اس کی قیادت کرتے رہے۔ سندھ کی تاریخ شاہد ہے کہ کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے جاگیرداروں اور ہاری دشمن اقدامات کی اکیلے ہی مدافعت کی اور اس کے خلاف تحریک چلائی۔ اسی دور میں ایک اور کلکٹر بھی تھے جو مسعود کھدرپوش کے طور پر مشہور تھے۔ ہم نے ان کے بارے میں جو قصے سن رکھے تھے اس کی وجہ سے ہم ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ 90ء کی دہائی میں دہلی ہندوستان جانا ہوا جہاں اس وقت ٹائمز آف انڈیا میں کام کرنے والے ایک سینئر سندھی صحافی لچھمن کومل سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مسعود کھدر پوش جھوٹے کمیونسٹ تھے کیونکہ نواب شاہ ضلع سے ہندوؤں کو ہندوستان منتقل ہونے پر مجبور کرنے والے یہی کھدرپوش صاحب تھے۔ لچھمن نے کہا کہ ہمارا خاندان اور ان کے باپ کسی صورت سندھ چھوڑنے کے حق میں نہ تھے مگر مسعود کھدرپوش نے انہیں نواب شاہ ضلع جو اس وقت نوشہرو فیروز تک پھیلا ہوا تھا کے اکثر ہندو خاندانوں کو دھمکیاں دے کر اور بزور طاقت سندھ چھوڑ کے ہندوستان جانے پر مجبور کیا۔ بعد میں اور ہندوؤں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ آج پاکستان بھر میں کامریڈ جتوئی جیسے ہیوی ویٹ کہاں نظر آتے ہیں۔ جی ہاں پنجاب میں عاصمہ جہانگیر یقیناً ایک بہادر، نڈر اور بیباک سیاستدان اور قانون دان کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ پنجاب کو ایسی بیٹی پہ فخر ہونا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ سندھ کے شہر ہالا میں ہونے والی پی پی کی دوسری ہالا کانفرنس جس میں محترمہ کو پی پی کی چیئرپرسن منتخب کیا گیا تھا، میں ایک مرحلے پر پی پی کے ایک سینئر رہنما مرحوم قاضی محمد بخش دھامرا نے تقریر کرتے ہوئے اس وقت پی پی سے الگ ہونے والے رہنما غلام مصطفی جتوئی پر تنقید کرتے ہوئے خاص طور پر اس بات پر غصہ ہوئے تھے کہ جتوئی صاحب بینظیر صاحبہ کا ذکر ”چھوکری“ یعنی لڑکی کہہ کے کرتے ہیں۔ انہوں نے اس مرحلہ پر غصے میں آ کر کہا کہ جتوئی صاحب کیا بھائیوں کی لاش بیرون ملک سے چھوکریاں لاتی ہیں؟ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بینظیر بھٹو لڑکی نہیں بلکہ سندھ کا بہادر سپوت ہے۔ اسی طرح سچی بات ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے اب تک جو کردار ادا کیا ہے اس پر نہ صرف پنجاب بلکہ سارا پاکستان فخر کرسکتا ہے۔ وہ پنجاب بلکہ پاکستان کا ایک بہادر سپوت ہیں۔
یہ سب باتیں اس وجہ سے لکھنی پڑ رہی ہیں کہ ایک بار پھر دہشت گردی عروج پر ہے جبکہ اس بار بھی ہماری سیاست ہیوی ویٹ سیاستدانوں سے خالی ہے۔ یہ دہشت گردی مذہی انتہاپسند قوتوں کی طرف سے کی جا رہی ہے اور وہ بھی پورے زور سے، اس وقت کی گئی ہے جب عام انتخابات آخری مراحل میں ہیں۔ دیکھا جائے تو مختلف وجوہ کی بنا پر ان انتخابات کا منعقد ہونا پاکستان کی تاریخ کا ایک مثالی کارنامہ ہوسکتا ہے کیونکہ پہلی بار ایک منتخب حکومت پانچ سال کی مدت مکمل کرچکی ہے۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل سے جو مرکز اور صوبوں میں آئین کے تحت نگراں حکومتوں کا قیام اور Scrutiny تک کے مراحل مکمل ہوچکے ہیں مگر دوسری طرف جو دہشت گردی کی جا رہی ہے اس کا نشانہ صرف چند جماعتیں بن رہی ہیں۔ یہی اے این پی، پی پی پی اور ایم کیو ایم شکایت کر رہی۔ یہ دہشت گردی دو زاویوں سے Selective ہے۔ اول تو چند ایسی جماعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پروگریسیو اور لبرل جماعتوں کے دائرے میں ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ دائیں بازو کی جماعتوں اور خاص طور پر پی ایم ایل (ن) اور تحریک انصاف کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جہاں چاہیں بڑے بڑے جلسے کریں۔ تین (چھوٹے صوبے) یعنی سندھ، کے پی اور بلوچستان متواتر نشانہ بن رہے ہیں اور اب تک ان صوبوں میں الیکشن میں حصہ لینے والوں کومسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔
کچھ سیاسی مبصرین دہشت گردی کی موجودہ خوفناک لہر کے حوالے سے صورتحال کو 1970ء کے الیکشن کے دوران دائیں بازو کی جماعتوں کی اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے تسلسل کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان مبصرین نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس وقت دائیں بازو اور دوسری طرف بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان تصادم کی صورتحال تھی۔ ان کے مطابق اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نوابزادہ شیر علی کو پاکستان کا وزیر اطلاعات مقرر کیا تھا اور ان کی وساطت سے دائیں بازو کی جماعتوں کی ہر طرف سے سرپرستی کی جا رہی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت نوابزادہ شیر علی کے ذریعے لاکھوں ڈالر دائیں بازو کی بڑی جماعتوں میں تقسیم کئے گئے جس کے زور پر ان جماعتوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ”یوم شوکت اسلام“ کے نام پر بڑے بڑے جلوس نکالے اور تاثر دیا گیا کہ ملک بھر میں دائیں بازو کی جماعتیں ہی انتخابات Sweep کریں گی۔ اس وقت کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان رقوم کی مدد سے سارے پاکستان میں Ballot کے ذریعے دائیں بازو کی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کو یقینی بنایا ہے مگر ہوا اس کے برعکس، اسٹیبلشمنٹ کا اگر کوئی پلان تھا تو وہ یکسر ناکام ہوگیا کیونکہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے Sweep کیا اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو، خان ولی خان اور بلوچ سرداروں کی پارٹیوں نے میدان مارلیا۔ اب اس وقت یہ نئی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور اب تو تین پارٹیوں اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی نے کھل کر الزام لگایا ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر واد سے ہو رہا ہے تو اکثر حلقے سوال کررہے ہیں کہ کیا اب اسٹیبلشمنٹ بیلٹ کی پرچی کے بجائے بلٹ سے پاکستان پر دائیں بازو کی قوتوں کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ اگر ایسی اطلاعات میں کسی حد تک صداقت ہے تو مبصرین یہ تبصرہ کرتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ جب بھی اسلحہ اور دہشت گردی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج ہمیشہ ان مقاصد کے برعکس اور انتہائی خطرناک نکلے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مثالیں دیتے ہوئے مبصرین کہتے ہیں کہ ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد سندھ میں پیدا ہونے والی بے چینی کا توڑ کرنے کیلئے ایک طرف اندرون سندھ ڈاکو فیکٹر کو جنم دیا گیا تو شہروں میں دہشت گردی کی سرپرستی کی گئی مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اندرون سندھ زراعت تباہ ہو گئی اور اندرون سندھ سے لوگوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی شروع ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ اسی طرح سندھ کے شہروں میں جس دہشت گردی کو شروع کیا گیا اس کے ردعمل میں ان شہروں کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ الگ دہشت گرد گروپ پیدا ہوگئے جو اب طاقتور ایجنسیوں سے بھی قابو میں نہیں آرہے۔ ہمارے سامنے ہندوستان کی بھی مثال ہے سکھوں کی دہشت گرد تنظیموں، جن کی قیادت اس وقت شاید جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کررہے تھے کا توڑ کرنے کیلئے اندرا گاندھی نے ہندوستان حکومت کی ایجنسیوں کی سرپرستی میں سکھوں کی ایک اور دہشت گرد تنظیم بنائی، بعد میں اسی تنظیم کے ایک کارندے نے اندراگاندھی کا قتل کیا۔
اگر یہی صحیح ہے کہ انتہا پسند دائیں بازو کے ان عناصر کے ہاتھوں میں خطرناک اسلحہ واقعی ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ نے دیا ہے تو کیا یہ بھی سوچا گیاہے کہ ردعمل میں اگر نشانہ بننے والے صوبوں سندھ، کے پی اور بلوچستان کی ان لبرل قوتوں نے بھی اسلحہ اٹھا لیا تو صورتحال کیا ہوگی؟ اور پاکستان کا کیا بنے گا؟ دوسری بات یہ کہ اگر واقعی اسی طرح انتخابات ہوتے ہیں اور انتہا پسند دائیں بازو والے عناصر اقتدار میں آجاتے ہیں تو کیا سندھ کے لوگ اس کو قبول کریں گے جبکہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کے پاس تو پہلے ہی اسلحہ ہے اور بلوچستان میں تو پہلے ہی باغیانہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ خدانخواستہ یہی ہونے جا رہا ہے تو انجام گلستاں کیا ہوگا؟جبکہ اس وقت سیاست ہیوی ویٹس نہیں بونوں کے ہاتھ میں ہے۔
تازہ ترین