• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں
یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے راہوں کو چھان بیٹھے ہیں
ساغر صدیقی نے تو راہیں چھانی ہوں یا نہ چھانی ہوں مگر موجودہ انتخابی مہم میں عمران خان، شہباز شریف، میاں نواز شریف اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے اپنی انتخابی مہم میں ملک کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ امیدوار اپنے اپنے حلقوں کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہر کونے میں کارنر میٹنگ کا اہتمام ہے جہاں حسب توفیق ریفریشمنٹ کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ پانچ سال تک جس عوام کی کوئی شنوائی نہ تھی آج کل ان کے کاموں کے لئے امیدوار تھانوں اور بجلی کے دفتروں اور میونسپل کمیٹیوں میں ٹیلیفون کرتے ہیں اور اگر ووٹر ذرا اہم ہے تو اس کے ساتھ تھانے میں جاکر شور بھی کرتے ہیں اور بجلی کے دفتر میں بل ٹھیک کرنے اور قسطیں باندھنے کا حکم دے کر دفتر کو جلانے کی دھمکی بھی رسماً اور احتیاطاً دے دیتے ہیں تاکہ ان کے ووٹر کا دل ٹھنڈا ہوجائے اور وہ دل و جان سے اپنے امیدوار کے حق میں نعرے لگانا شروع کردے اور اپنے گھر کی چھت پر اس امیدوار کی پارٹی کا جھنڈا بھی لہرا دے اور دروازے پر امیدوار کا پوسٹر آویزاں کردے۔ خدمت میں عظمت ہے اور آج کل تمام امیدوار خدمت کا جذبہ لئے عظمت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یونہی تو عظمت ملتی ہے اور وہ امیدوار جو اس وقت موٹر سائیکل پر یا پیدل نظر آرہا ہے منتخب ہوتے ہی ڈیڑھ کروڑ روپے کی سفید یا سیاہ رنگ کی لینڈ کروزر میں سیاہ شیشوں کے ساتھ پارٹی کا جھنڈا جیپ پر لگائے ہوئے کبھی کبھار اپنے علاقے سے گزرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ تمام عظمت وہ عوام کی خدمت کے عوض راتوں رات کماتا ہے اور عظمت دلانے والا ووٹر حسب سابق نان شبینہ کا محتاج رہتا ہے اور پھر اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ہمیشہ نہیں تو اکثر واپسی پر جلسے سے کرسی اٹھا لاتا ہے تاکہ کچھ تو وصولی ہوجائے۔
جوں جوں 11مئی کا دن نزدیک آرہا ہے عوام کو حکمرانوں کی طرف سے یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں کہ روز روز کی اموات کی پروا نہ کریں۔ الیکشن 11مئی کو ضرور ہوگا۔ آندھی آئے یا طوفاں، الیکشن ہوکر رہے گا۔ حکمران، حکمران ہوتا ہے چاہے عبوری ہی کیوں نہ ہو۔ عبوری وزیراعظم نے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقریر کے بعد فوراً وہی تقریر اپنے الفاظ میں دہرا کر عوام کو ایک مرتبہ پھر یقین دلانے کی کوشش کی کہ 11مئی کو انتخابات ضرور ہوں گے۔ میں نے تو اپنے کالم میں بہت پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ اگر انتخابات نہ ہونے ہوتے تو میرا کی ماں الیکشن میں حصہ نہ لیتی کیونکہ میرا کا وقت بہت قیمتی ہے اور اس کی والدہ اپنی بیٹی کا وقت انتخابی مہم پر ضائع نہیں کرسکتیں۔ اب سنا ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا کی والدہ، مسرت شاہین اور دیگر تمام جعلی ڈگریوں والے امیدوار صادق اور امین ہوگئے ہیں، نہیں ہوا تو بے چارہ مشرف۔ بہرحال یہ ان کی پارٹی کا اپنا فیصلہ ہے اور عدالتوں کا اپنا فیصلہ ہے۔ پشاور کی ایک عدالت نے تو مشرف پر الیکشن میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی لگا دی ہے حالانکہ میری معلومات کے مطابق آئین پاکستان اور الیکشن کے قوانین کے تحت ایسا کوئی آرٹیکل یا دفعہ نہیں ہے جس کے تحت کسی شخص کے الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی لگائی جاسکے۔ بہرحال اب یہ ایک عدالت کا حکم ہے اور جب تک بڑی عدالت اس حکم میں کوئی تبدیلی نہ کرے یہ پرویز مشرف پر لاگو رہے گا۔ قید وبند کی صعوبتیں تو انسان برداشت کرلیتا ہے مگر اس طرح کے آرڈر سے ملنے والی ذہنی کوفت ہر ذی شعور انسان کے بس سے باہر ہے۔ بہرحال ہماری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنرل پرویز مشرف کو حوصلہ دے کہ وہ اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات کا دفاع بخوبی کریں اور ان کے حامیوں کو بھی خدا ہمت دے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی صعوبتوں سے نبرد آزما ہوں۔ سیاست کا راستہ خاردار ہے اور اس سے گزرنے والے کو ان تمام آلام و مصائب کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ میں جانتا ہوں پچھلے ادوار میں جو سیاستدان جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے۔ حکومت میں آنے کے بعد ان کے دن پھر گئے، پھر تو انہوں نے ساری لیٹ کور COVER کرلی اور اس وقت اللہ کے فضل و کرم سے محلات کے علاوہ لینڈ کروزروں کے مالک ہیں اور پھر دوبارہ الیکشن جیتنے کیلئے سرگرداں ہیں اور میرے اندازے کے مطابق ان میں سے کافی لوگ دوبارہ جیت جائیں گے کیونکہ نہ صرف انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کا خیال رکھا ہے بلکہ ان کو اچھے اچھے محکموں میں اچھی اچھی نوکریوں پر بھی لگوایا ہے۔ عوام نے نوکریاں حاصل کرنے کیلئے اگر تھوڑا بہت خرچہ کر بھی دیا تو وہ اس بات سے ناراض نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے نوکری لگتے ہی فوراً وہ نقصان جو نوکری حاصل کرنے کی مد میں ہوا تھا، پورا کرلیا اور اب نفع میں ہیں اور اپنے امیدوار کیلئے دل جان سے تگ و دو کررہے ہیں کہ وہ دوبارہ کامیاب ہوجائیں کیونکہ ابھی چھوٹے بھائی اور بیٹے کو بھی تو نوکری دلوانی ہے۔ عمران خان سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے دعوے کررہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف بھی جان مار رہے ہیں اگرچہ ملک میں انتخابات ہورہے ہیں مگر تمام سیاسی رہنما انقلاب کی نوید دے رہے ہیں۔ بندہٴ مزدور ان پُرجوش نعروں اور میٹھی میٹھی تقریروں کو اپنے غموں کا مداوا سمجھتا ہے اور تھوڑی سی دیر کیلئے خوابوں کی جنت میں پہنچ جاتا ہے جہاں نہ بے روزگاری ہوگی، نہ لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ انصاف کا بول بالا ہوگا اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدور کو مزدوری مل جائے گی۔ غریب کے بچے اعلیٰ تعلیم مفت حاصل کریں گے اور روزگار کے مواقع یکساں ہوں گے نہ تو اغوا برائے تاوان ہوگا اور نہ ہی بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوگا۔ ٹارگٹ کلنگ سرے سے ختم ہو جائے گی، سی این جی اور گیس عام ملے گی ، عوام رنگ رلیاں منائیں گے۔ یہ تمام تقریریں آپ گیارہ مئی تک سن لیں اور سنہرے خواب دیکھ لیں گیارہ مئی کے بعد عوام ناصر کاظمی کے یہ اشعار گنگنائیں گے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
تازہ ترین