• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اندرونِ ملک گندم کی امدادی قیمت کے تعین کے معاملے پر پہلی زور دار آواز حکومت کے ایک اتحادی سیاسی رہنما کی طرف سے اٹھی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جس معاملے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے،جب زرعی مداخل (بیج، کھاد، ڈیزل، زرعی ادویات وغیرہ) کی قیمتیں بڑھیں گی تو اصولاً گندم کی امدادی قیمت بھی بڑھنی چاہئے،جو کئی سال سے1400روپے فی من چلی آ رہی ہے اور اب اس میں 200روپے اضافے کی اطلاعات ہیں جسے چوہدری پرویز الٰہی نے کسانوں سے مذاق قرار دیا اور کم از کم قیمت2000 روپے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اُن کا درست طور پر یہ خیال ہے کہ اگر قیمت بڑھا کرمعقول سطح پر نہ لے جائی گئی تو گندم کی کاشت کسانوں کے لئے منافع بخش نہیں رہے گی اور وہ متبادل فصلوں کا سوچیں گے،جیسے کپاس کی کاشت کے علاقوں میں گنا کاشت ہونے لگا ہے اور کاٹن ملوں کو اپنی ضرورت کے مطابق کاٹن بھی باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے۔گندم کا کاشتکار بھی متبادل فصلیں کاشت کرنا شروع کرے گا تو گندم کی درآمد ہماری مستقل ضرورت بن جائے گی، جس پر کثیر زرمبادلہ صرف ہو گا،امدادی قیمت مقرر کرتے وقت ان امور کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے، بیرونِ ملک سے جس قیمت پر گندم خریدی جا رہی ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس وقت مارکیٹ میں گندم 2400 روپے میں بک رہی ہے،اگر پنجاب گندم میں ہمارے دور کی طرح خود کفیل ہونا چاہتا ہے تو اسے کسانوں کا خیال رکھنا ہو گا، ورنہ اس کا منفی اثر پڑے گا۔ امدادی رقم سے اگر گندم کی کاشت کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا تو کسان کیا بچائے گا،کیا کھائے گا اور کیا لگائے گا؟

دوسری جانب کئی سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان باہر سے گندم منگوا رہا ہے ورنہ حالت یہ تھی کہ پیداوار سنبھالنا مشکل تھا اور ان دِنوں یہ مطالبے منظر عام پر آ رہے تھے کہ گندم یا آٹا بیرونِ ملک برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہماری گندم اور آٹے کی سب سے بڑی مارکیٹ افغانستان ہے، چاہے یہ گندم باقاعدہ برآمد ہو یاا سمگلنگ کے ذریعے لے جائی جائے، عشروں سے افغانستان کی گندم کی ضروریات ایسے ہی پوری ہوتی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ ستم طریفی یہ ہے کہ پاکستان بیرون ملک سے، جو مہنگی گندم درآمد کر رہا ہے اور جو کراچی پہنچ کر50 روپے فی کلو کے لگ بھگ پڑتی ہے، کہا جاتا ہے اس کا کچھ حصہ بھی افغانستان اسمگل ہو رہا ہے۔ ای سی سی نے گندم284ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد کرنے کی اجازت دی تھی لیکن روس سے گندم کا جو جہاز آیا اس کی قیمت 287ڈالر فی ٹن تھی، اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ ہونے والے سودوں میں قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ نجی شعبے کو بھی گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور بعض فلور ملوں نے اپنی ضرورت کے مطابق گندم درآمد کر کے آٹا مارکیٹ کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔اب ظاہر ہے درآمدی گندم سے جو آٹا بنے گا اس کی قیمت کا تعین بھی ہر قسم کے درآمدی اخراجات کو پیش ِ نظر رکھ کر ہی کیا جائے گا۔ کوئی ذخیرہ اندوزی نہ بھی کرے تو قیمت بڑھے گی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت اور تجویز پر صوبائی کابینہ نے فلور ملوں کیلئے گندم کے کوٹے میں اضافے کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے اور ان ملوں کو روزانہ25 ہزار ٹن گندم فراہم کی جائے گی، مقصد یہ ہے کہ عوام کو آٹا مہیا ہو اور قلت کی شکایات ختم ہوں،اِس گندم کے عوض آٹا سرکاری نرخوں پر بیچا جائے گا۔حکومت کی کوشش اپنی جگہ قابل ِ تعریف ہے،لیکن جب تک عملی نتیجہ سامنے نہ آئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس تمام تر رعایت کا صارفین کو کیا فائدہ ہو گا۔اس کا تجربہ تو شہریوں کو اب سہولت بازاروں میں بھی ہونے لگا ہے،جہاں یوٹیلیٹی اسٹوروں کی طرح صارفین کو چینی کے ساتھ دوسری اشیاء بھی لینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور چینی بھی شناختی کارڈ دیکھ کر صرف دو کلو دی جاتی ہےجس کی قیمت 84 روپے فی کلو ہے۔ صارفین نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ ان سہولت بازاروں میں اشیاء نہ صرف یہ کہ معیاری نہیں،بلکہ بازار کی نسبت سستی بھی نہیں،بلکہ بعض مہنگی ہیں۔ حکومت ِ پنجاب خصوصاً وزیراعلیٰ کو ان تمام شکایات کا جائزہ لیکر اقدامات کرنے چاہئیں۔ دوسری طرف کسانوں نے مظاہرے شروع کر دئیے اور لاہور میں کسان اتحاد کے مظاہرے پر پولیس نے واٹر کین ،شیلنگ اور مبینہ پولیس تشدد کیا جس سے کسان اتحاد کے رہنما اشفاق لنگڑیال لاہور کے جناح ہسپتال میں دم توڑ گئے ۔

تازہ ترین