• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نہ مانوں

خبر رساں ایجنسیاں کہتی ہیں:بائیڈن کی کامیابی یقینی، صدارتی سیکورٹی مل گئی، ٹرمپ ضد پر قائم۔ امریکا اور ٹرمپ کی جوڑی ابتدا ہی سے نہیں سجتی تھی، آخر خلع ہو گئی اور رخصتی کا وقت آن پہنچا۔ ایک عرصے بعد پھر سے یہاں جمہوریت اپنی اصلی شکل دکھائے گی۔ امریکی اور تارکین وطن سکھ کا سانس لیں گے اور امریکی باشندوں کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ انسان اس وقت منہ کی کھاتا ہے جب وہ خود کو ناگزیر سمجھ بیٹھتا ہے بہرحال ٹرمپ کا دور بھی رنگا رنگ رہا، لوگ شرما شرما کے ہنستے روتے رہے۔ جوبائیڈن لگتے تو جمہوری سے ہیں بچہ جمہورا نہیں امید ہے کہ امریکا کی سرزمین پر موجود ہر رنگ ہرنسل اب خوش رہے گی۔ امریکا آنا جانا اب ’’بزتی پروگرام‘‘ نہیں ہو گا، چین کو بھی چین نصیب ہو گا اور دیگر جمہوریت پسند ممالک کو بھی تعلق جوڑنے پر شرمندگی نہیں اٹھانا پڑے گی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پرنالہ وہیں کا وہیں رہے۔ بہرحال ضد اور ڈیمو کریسی آمنے سامنے تھی، نسل پرستی بھی سر اٹھانے لگی تھی، بائیڈن بائنڈنگ سے کام لیں گے اور شاید ایک بار پھر امریکا مسافروں کی جنت بن جائے۔ دنیا کا مزاج بھی بدلتا جا رہا ہے شاید وہ اب سپر پاور جیسے تصور اور تاثر سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ سپرپاور فقط اللہ کی ذات گرامی ہے اس کے بندے کچھ کمزور کچھ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ بہرصورت خدا کرے بائیڈن سب کی خوشحالی کا سوچیں، امریکا کو ہر دلعزیز بنائیں اس سے زیادہ بڑا پن کیا ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کے پاس اب اس کے سوا کیا ہے کہ ’’نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ اب دیکھتے ہیں کہ ؎

زمین امریکا رنگ دکھاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ رنگ کیسے کیسے

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

رات اکیلی ہے

وزیر اعلیٰ بزدار کا رات گئے بغیر پروٹوکول لاہور کا دورہ، رات اللہ نے آرام اور دن کام کے لئے بنایا ہے، ویسے بھی رات کو نکلنا اور شہر کی حالت ِ زار کا نہ بدلنا یہ تاثر بھی دے سکتا ہے کہ رات نے کیا کیا رنگ دکھائے۔ بلھے شاہ نے تو رات گئے نکلنے بارے بہت کچھ کہا ہے ہم اس تفصیل میں جا کر وضو شکنی نہیں کر سکتے۔ خدا کرے انہوں نے اس فقیر کے علاقے کینال پوائنٹ فیز ٹو ہربنس پورہ کا منظر بھی دیکھا ہو جہاں سلامت پورہ میں کچرا مافیا نے چار دیواری میں 8بڑے بڑے فرنسس بنا رکھے ہیں اور اس علاقے میں اپنے مقررہ بندے مقرر کر رکھے ہیں جو ہر گھر سے 2سو روپیہ ماہانہ وصول کر کے سارا کوڑ ان بھٹیوں تک پہنچاتے ہیں جہاں رات گئے کوڑا جلایا جاتا ہے اور ماحول میں تعفن پھیل جاتا ہے حالانکہ کوڑا اٹھانا ایل ڈی اے اور سالڈ ویسٹ والوں کا کام ہے جس کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔ اسی طرح اس علاقے میں سڑک نام کی کوئی چیز نہیں بالخصوص میرے غریب خانے کے آس پاس تو بس دھول ہی دھول ہے۔ کینال پوائنٹ فیز ٹو کیلئے لیسکو نے تاج باغ سے ایک عدد ٹرانسفارمر ادھار لے رکھا تھا وہ تاج باغ والے لے گئے اور اب ہم اس پرانے مرمت شدہ ناکافی ٹرانسفارمر پر گزارہ کر رہے ہیں جس نے حبس کے موسم میں ہماری سانسیں کشید کر لی تھیں۔ لیسکو جی ایم کے اسسٹنٹ برائے اطلاعات سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے جی ایم تک رسائی نہ دی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اچھا کرتے راتوں کو نکلتے ہیں، ممکن ہے وہ میرے علاقے میں بھی قدم رنجا فرمائیں، سڑکیں پختہ کر دیں، گیس کا پریشر کم از کم بل جتنا تو کر دیں اور یہ کوڑا بڑے پیمانے پر جلانے کا سلسلہ بند کرا دیں۔ جو اہلکار گھروں سے کوڑا اٹھانے پر مامور ہیں انہیں فرض شناس بنائیں اور مافیا کے کارناموں سے جان چھڑائیں جو ہر گھر سے وصولی بھی کرتے ہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ لائوڈ اسپیکر ایکٹ پر بھی عمل ہو جائے تو مریض چین سے سو سکیں، طالب علم پڑھ سکیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تنگ آمد بہ جنگ آمد

مقررین:میر شکیل الرحمٰن کو رہا نہ کیا تو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ یہ خبر روزانہ چھپتی ہے کہ لاہور پریس کلب کے باہر میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ مقررین تقاریر کرتے ہیں مگر حکومت نے اپنے کانوں میں شاید سیسہ پگھلا کر ڈال رکھا ہے۔ کبھی بزدار صاحب ان مقررین کی تقریریں ہی سننے صبح صبح آ جائیں، جہاں سویرے سویرے بھی رات کا سماں ہوتا ہے اور پروٹوکول کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ 34سالہ پرانا زمین کی خریداری کا عدالتوں سے ایک مردود کیس میر صاحب کو ہراساں کرنے کے لئے زندہ کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ وہ ایک خودمختار وزیراعلیٰ ہیں اپنے صوبے میں میڈیا کے ایک ورکنگ جرنلسٹ مالک کو خواہ مخواہ جیل میں رکھنے کے خلاف وہ بھی خان صاحب سے عاجزانہ یا جراتمندانہ درخواست کریں کہ نہ مقدمہ چلتا ہے نہ ایک شریف شہری کو رہائی ملتی ہے۔ دیکھتے ہیں سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کا وزیراعظم کتنا کہنا مانتے ہیں۔ اگر تو مقصد جیو جنگ پر بندش ہے تو یہ برہنہ ظلم ہے، اس ظلم کو جامۂ انصاف پہنایا جائے۔ انصاف والو کب تک یہ ظلم روا رکھو گے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب یہ احتجاج وزیر اعظم کے دفتر کی جانب رواں دواں ہونے پر آمادہ ہو چکا ہے۔ بزدار صاحب حق سچ کے علمبردار میر صحافت میر شکیل الرحمٰن کو رہا کریں ورنہ یہ سمجھا جائے گا ؎

حکومت کو ملی چند چینلوں پر اچھل کود کی اجازت

ناداں یہ سمجھتی ہے کہ صحافت ہے آزاد

بہت ہو چکی، انتقام ایکسپائرڈ ہو گیا ہے اب میر شکیل الرحمٰن کو باعزت رہا کیا جائے۔ ہماری آواز کو صدا بہ صحرا نہ سمجھا جائے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

’’اوہ دن ڈبیا‘‘

٭ کورونا، ہالز میں شادیوں پر پابندی

شادیاں ہالز میں نہیں انٹرنیٹ پر ہو چکی ہوتی ہیں اس پر پابندی کیسے لگائیں گے۔

٭فردوس عاشق اعوان:کسی سے ذاتی مخالفت نہیں نظریئے کا فرق ہے۔

نظریہ جب سرکاری ہو جائے تو نظریہ پاکستان بن جاتا ہے، اس پر مخالفت تو ویسے بھی جمہوری کفر ہے۔

٭ہکلانے اور تتلانے پر اسکول میں جوبائیڈن کا مذاق اڑا۔

آج انہوں نے مذاق کا مذاق ہی مذاق میں بدلہ لے لیا۔

٭ وفاقی وزراء:مہنگائی پر کنٹرول اولین ترجیح، چینی 15سے 20روپے سستی ہو جائے گی‘‘۔

’’اوہ دن ڈبیا جدوں کبا گھوڑی چڑھیا‘‘

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین