• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابی مہم عروج پر پہنچ چکی ہے۔ دو دن بعد، 9مئی شب بارہ بجے یہ دفتر لپٹ جائے گا۔ چار دن بعد کم و بیش چار کروڑ ووٹر گھروں سے نکلیں گے اور ان کا فیصلہ پاکستان کی تقدیر رقم کردے گا۔ پھر 12مئی کا سورج طلوع ہوگا جب کسی کے دالان میں کامرانی کے شادیانے بج رہے ہوں گے اور کسی کی حویلی میں شامِ غریباں کے تنبو تنے ہوں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب نعرے، دعوے، تجزیئے ، رائے عامہ کے جائزے اور اندازہ و قیاس کے زائچے دھرے رہ جائیں گے، دودھ ایک طرف ہوجائے گا پانی ایک طرف۔
بظاہر انتخابی اکھاڑے میں صرف دو جماعتیں طاقت آزمائی کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ۔ لیکن پیپلز پارٹی اور ”ق“ لیگ اتحاد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مدت بعد جماعت اسلامی بھی تن تنہا میدان میں اتری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی بھی سرگرم ہیں۔ ایم کیو ایم اپنے توانا حلقہ ہائے اثر میں متحرک ہے۔ بہت سی دوسری جماعتیں بھی قسمت آزمائی کررہی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی قومی تشخص کی حامل نہیں۔ یہ بات اب کسی دلیل کی محتاج نہیں رہی کہ سب سے بڑا دنگل پنجاب میں لگے گا جہاں قومی اسمبلی کی کل 272 نشستوں میں سے 150 نشستیں (اسلام آباد کی دو نشستیں ملاکر ) ہیں۔ اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا جو پنجاب میں فیصلہ کن برتری حاصل کر لے گا۔ ”فیصلہ کن برتری“ کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ جو جماعت 150 میں نے 100 کے لگ بھگ سیٹیں جیت لے گی اسے حکومت بنانے سے نہیں روکا جاسکے گا۔ 272 سیٹوں پر براہ راست انتخاب ہورہا ہے۔ اگر کوئی جماعت، آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد پورے ملک میں 136/ارکان کی تعداد دکھا دیتی ہے تو اسکے معنی یہ ہوں گے اسے سادہ اکثریت حاصل ہوگئی کیونکہ اسی نسبت سے اسے خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں بھی مل جائیں گی اور وہ 342 کے ایوان میں 172/ارکان کے ساتھ حزب اقتدار کے بینچوں پر بیٹھ سکے گی۔ اگر اس جماعت کو کچھ دوسری پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہوگئی اور وہ 228کے جادوئی عدد تک جاپہنچی تو اسے دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہوسکتی ہے۔
یہ سب فقط امکانات کا کھیل ہے۔ حقیقی منظر نامے کے خد و خال 11/اور 12مئی کی درمیانی شب ہی ابھر سکیں گے۔ لیکن پنجاب کا بے لاگ جائزہ یہ بتارہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری ہے۔ ہمارے ہاں کے مخصوص ماحول کے باعث رائے عامہ کے جائزے بہت معتبر نہ سہی لیکن ایک سمت یا کم از کم ہوا کے رخ کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ آئی آر آئی کا ایک جائزہ آیا تو تحریک انصاف نے اس کی تشہیر میں آسمان سر پہ اٹھا لیا کیونکہ اس میں خان صاحب، مقبول ترین رہنما کے طور پر ابھرے پھر اسی آئی آر آئی نے پے درپے دو جائزوں میں بتایا کہ قومی سطح پر مسلم لیگ (ن) کو فیصلہ کن برتری حاصل ہے تو خان صاحب سمیت نونہالانِ انقلاب نے اس کی دھجیاں اڑا دیں۔ گیلپ پاکستان کے ایک انتہائی جامع اور وسیع تر سروے نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) دوسری تمام جماعتوں سے کوسوں آگے ہے۔ یہاں تک کہ خیبرپختونخوا کا قلعہ بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ اب کے پی ٹی آئی کے جانبازانِ انقلاب نے گیلپ پاکستان ہی نہیں، مرنجاں مرنج اور نفیس انسان ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کو بھی نشانے پہ دھر لیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود اندر اور باہر کی ہوائیں یہی خبر دیتی رہیں کہ مسلم لیگ (ن) یہ انتخابات جتنے جارہی ہے۔ معروف برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے دو دن پہلے پاکستان بھر کی انتخابی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ ”نواز شریف وزارت عظمیٰ کی دہلیز پہ کھڑا ہے۔ ”اکانومسٹ نے تازہ ترین شمارے میں مسلم لیگ (ن) کے گراف کو بہت بلند قرار دیا۔ فنانشل ٹائمز نے یہ خبر دی کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اس تاثر کے باعث نہایت تیزی آگئی ہے کہ نواز شریف کی حکومت بننے والی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں اور معتبر عالمی اخبارات کے ان تبصروں میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے اور ان میں زبردست تسلسل پایا جاتا ہے۔ مختلف حلقوں میں بھی مقامی بنیادوں پر کرائے گئے سرویز بھی اسی رجحان کی نشاندہی کررہے ہیں۔ زبان خلق اگر واقعی نقارہٴ خدا ہوتی ہے تو اس کی گونج بھی یہی ہے۔ سب سے اہم بات مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کا اعتماد و یقین ہے۔ اس کے جلسے بھی بہت بھاری جارہے ہیں۔ نواز شریف کی بدن بولی کے ایک ایک انگ سے یقین محکم جھلک رہا ہے۔ حریفوں کے ناروا حملوں کو وہ نظرانداز کررہے ہیں۔ وہ اپنے دو ادوار حکومت کے اہم کاموں کا ذکر کررہے ہیں۔ پنجاب کی پانچ سالہ کارکردگی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ آئندہ کے منصوبوں کا ذکر کررہے ہیں۔ مقامی مطالبات کو اہمیت دے رہے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ملک بحرانوں کے بھنور میں ہے۔ اسے کوئی مداری ، اناڑی اور کھلاڑی اس گرداب سے نہیں نکال سکتا۔ وہ اپنی تجربہ کار، ہنر مند اور پُرعزم ٹیم کا حوالہ دے رہے ہیں جس نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ ان کی اشتہاری مہم ، پی پی پی اور پی ٹی آئی کا دس فیصد بھی نہیں لیکن انہوں نے اب تک کوئی منفی انداز اختیار کیا نہ کسی پہ کیچڑ اچھالا۔ مسلم لیگ (ن) کا طرز عمل ایک ایسی ٹیم کا ہے جسے اپنی فتح کا یقین ہے اور جو کسی صورت میچ کو خراب نہیں کرنا چاہتی۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ کم و بیش ایک درجن آزاد امیدوار (جو جیتتے دکھائی دے رہے ہیں) مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا عہد کرچکے ہیں۔ ”ن“ کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ پنجاب سے وہ ایک سو سے زائد سیٹیں جیت سکتے ہیں۔
”ن“ کی سب سے بڑی حریف، پی ٹی آئی بھی ”تہیہٴ طوفاں“ کئے ہوئے ہے۔ اس کا خیال ہے کہ سونامی سب کچھ بہالے جائے گا اور 11مئی کا دن ایک نئی تاریخ لکھے گا۔ زمینی حقیقتیں اس خواب خرامی کی تائید نہیں کرتیں۔ اسباب واضح ہیں قیمتی وقت داخلی انتخابات کی نذر ہوگیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم پہ سوالات اٹھے۔ ہمنوا قلم کاروں نے بھی کہا کہ انتخابات اور ٹکٹوں کی بانٹ میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی ہوئی۔ پی ٹی آئی عملاً ثابت نہ کرسکی کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ دیگر جماعتوں سے آئے تمام فصلی چرند و پرند کو ٹکٹ دے دیئے گئے۔ درجنوں روایتی خاندانوں کے بچوں کو بھی ٹکٹوں سے نواز دیا گیا۔ ان میں وہ بھی ہیں جو معاشرے میں کسی طور نیک نام نہیں اور جن کے خلاف درجنوں مقدمات دائر ہیں۔ لال حویلی کی کٹی پتنگ سے خان صاحب کا اتحاد ”نظریاتی“ سیاست کا عجوبہ قرار پایا۔ سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ خان صاحب نے بڑے بڑے جلسوں کو کوئی وژن، کوئی واضح پیغام، کوئی روشن تصور دینے کے بجائے حریفوں کو گالیاں دینے، ان کا تمسخر اڑانے اور طفلانہ انداز کے چٹکلوں میں ضائع کردیا۔
میں ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتا ہوں جو خان صاحب کے انداز اور لب و لہجہ کے باعث پی ٹی آئی سے کنارہ کش ہوگئے۔ خان صاحب نے یہ کہہ کر انتہائی ناپختگی کا مظاہرہ کیا کہ میں حکومت کے لئے کسی دوسری جماعت سے اتحاد نہیں کروں گا۔ ان کے اس اعلان نے پی ٹی آئی پر حکومت سازی کے دروازے بند کردیئے کیوں کہ تن تنہا 136 نشستیں جیت جانا خواب و خیال میں نہیں سماتا۔ عوام کے دل و دماغ میں اس خدشے نے بھی سر اٹھایا کہ کیا پی ٹی آئی کو ووٹ دینے سے مسلم لیگ (ن) کو خسارہ ہوگا اور ایک بار پھر پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوجائے گی؟ عوام ابھی تک 1993ء کو نہیں بھولے جب پف نے مسلم لیگ (ن) کو پیچھے دھکیل کر پیپلزپارٹی پہ باب ِاقتدار وا کردیا تھا اور خود تین سیٹیں لے کر بیٹھ گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے انتخابی مہم پر خرچ ہونے والے اربوں روپوں کا سوال بھی اٹھا اور یہ تاثر بھی قوی ہوا کہ مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف، نواز دشمنی کے احساس مشترک پر ایک ہوچکی ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہ رہی کہ پیپلز پارٹی کی تجوری کا بڑا حصہ پی ٹی آئی کو اجالنے اور اچھالنے پہ صرف ہورہا ہے کیونکہ خان صاحب کو پڑنے والے ہر ووٹ کو وہ اپنا ووٹ سمجھ رہی ہے۔ لوگ یہ بھی نہ سمجھ پائے کہ خان صاحب وفاق اور تین صوبوں کی نااہل اور کرپٹ حکمرانی کو نظرانداز کرکے اپنا خنجر صرف پنجاب کے سینے میں کیوں گھونپ رہے ہیں۔
مبصرین کا اندازہ ہے کہ تمام تر شور و غل اور میڈیا کے چونچالی پن کے باوجود اگر پی ٹی آئی دو درجن سے زائد سیٹیں لے جاتی ہے تو یہ اس کی کرشماتی کارکردگی ہوگی۔ ”پی پی پی،ق“ اتحاد کی زندگی اور موت کا انحصار صرف ”سونامی“ پر ہے۔ اگر سونامی، مسلم لیگ (ن) کے قلعے کی فصیلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پاتا تو پی پی پی اور ق لیگ 12مئی کو ایک دوسرے کے گلے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بین کر رہی ہوں گی۔ بظاہر یہ نوشتہ دیوار دکھائی دیتا ہے لیکن انہونیوں کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے اور غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
تازہ ترین