• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر مسلم لیگ (ن) کے پہلے دور حکومت تک سیاست میں بڑی وضع داری تھی،شائستگی تھی۔سیاسی رہنما یہاں کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے تقاریرکرتے تھے۔نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا مفتی محمود،خان عبدالولی خان،عطاء اللہ مینگل،عبدالصمد خان اچکزئی،نواب اکبر بگٹی اور اس وقت کے دیگر کئی رہنماتھے۔وہ سیاست کرتے تھےجلسے جلوسوںمیں تقاریر کیا کرتے تھے لیکن سخت ترین سیاسی مخالفین کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے شائستگی اور وضع داری کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسےشعلہ بیان رہنما نے کبھی بھی کوئی ایک نازیبا لفظ استعمال نہیں کیا۔ان سیاسی رہنمائوں کے بعد اس وقت سیاست سے شائستگی رخصت ہونے لگی جب سیاست میں غیر سیاسی،نا تجربہ کار اور نو آموز افراد داخل ہونا شروع ہوئے۔ہمیں یاد ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے قومی اسمبلی کے فلور پر شہید بھٹو کے بارے میں نازیبا کلمات کہے تھے۔آج وہی رکن قومی اسمبلی موجودہ حکومت میں شامل ہیں۔پیپلز پارٹی میں سے کسی نے اس وقت اس طرح کا جواب نہیں دیا تھااور معاشرتی روایات کا خیال رکھاتھا۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں سیاست میں معاشرتی روایات اور شائستگی کاخاتمہ ہوتا گیا۔اس سے قطع نظر کہ سیاستدان قوم کے رہنما ہوتے ہیں۔قوم ان سے تمیز اور انداز گفتگو سیکھتی ہے۔پہلے تو نوجوان سیاسی رہنمائوں کو اپنا آئیڈیل بناتے تھے لیکن ہمیں یاد ہے کہ مسلم لیگ(ن) سے کس طرح شہید بھٹو کی نازیبا تصاویر والے پوسٹر چھپوا کر جہاز سے لاہور شہر میں گرائے گئے تھے۔پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی آئیں لیکن کبھی کسی سیاسی رہنما کے بارے میں ایک بھی نازیبا اور توہین آمیز لفظ سننے کو نہ ملا۔میاں شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔سابق صدر مرحوم فاروق لغاری پر آصف علی زرداری کی طرف سے کس طرح ذاتی حملے کئے گئے اور ان کی کردار کشی کی گئی۔اسی طرح مسلم لیگ(ن) نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔عمران خان کی کردار کشی کی گئی حتیٰ کہ ان کی ذاتی زندگی پربھی بری طرح کیچڑ اچھالا گیا۔اس کے باوجود عمران خان نے (ن) لیگی رہنمائوں کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہا نہ ان پر ذاتی حملے کئے۔

پھر ایسا وقت آیا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کو عروج ملنا شروع ہوا تو ان کے جلسوں میں ا سٹیج سے بعض غیر سیاسی اور نوواردوں نے ایسے جملوں اور نعروں کا آغاز کیا جن کی وجہ سے سیاست میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔اور پھر جواب الجواب کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تا حال جاری ہے۔نہ صرف جاری ہے بلکہ اب تو بات بہت آگے تک چلی گئی ہے۔ذرا سوچئے کہ ہماری معاشرتی روایات میں بغیر ثبوت کے کسی کو چور اور ڈاکو کہنا کتنا برا سمجھا جاتا ہے۔لیکن تحریک انصاف کے اکابرین نے ان دو الفاظ کو بطورگردان استعمال کرنا شروع کیا۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں سیاسی مخالفین کے لئے متعدد بار یہ نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال نہ ہوتے ہوں۔جواب میں دوسری طرف سے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے۔سیاست کے اس تاریک دور میں صرف چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ایسے سیاسی رہنماہیں جو اپنی خاندانی روایات کے امین ہیں۔اور یہ غنیمت ہے۔میری ان سے کبھی کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاسی تاریخ میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن یہ دونوں شخصیات بلاشبہ سیاسی رہنما کہلانے کی مستحق ہیں۔موجودہ سیاسی منظر نامہ کو دیکھا جائے تو ملک میںسیاسی صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ملک میں سیاسی افراتفری میں اضافہ ہو رہا ہے۔دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ملکی حالات کو سیاست کی آڑ میں بند گلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جا رہے ہیں۔حکومت کو سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنے کے لئے جو لچک دکھانی چاہئے وہ کہیں نظر نہیں آرہی۔

دوسری طرف مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے۔یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں اور اس کشیدہ اور ناگفتہ بہ صورتحال کی انتہا کیا ہےلیکن افسوس کہ کوئی بھی اس پر غور کرنے کو تیار نہیں ۔سیاست، نا شائستگی،بدزبانی،بدلحاظی اور بد تہذیبی کا شکار ہے۔جبکہ عوام مہنگائی کی وجہ سے نالاں ہیں۔ایسے حالات میں تو ’’ تبدیلی‘‘ یقینی ہے۔آخر میں چوہدری شجاعت حسین کیلئے دعا گو ہوں۔اللہ کریم ان کو جلد صحت یابی اور تندرستی عطا کرے۔

تازہ ترین