• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ میرا بیک گراؤنڈ رپورٹنگ کا نہ میں سوشلائز کرتا ہوں اس لئے میرے پاس ”خبر“ نام کی تو کوئی چیز ہوتی ہی نہیں، میں تو جو کچھ اخباروں میں پڑھتا یا فضا میں محسوس کرتا ہوں اسی کو بنیاد بنا کر کالم کی سزا پوری کر لیتا ہوں۔ مجھے تو یہ دعویٰ بھی نہیں کہ ”چھٹی حس“ پر بھروسہ کرتا ہوں کیونکہ ”چھٹی حس“ اسے نصیب ہوتی ہے جس کی پانچوں حسیات میں پرفیکٹ ترین ہم آہنگی موجود ہو۔ میں تو خالصتاً اللہ توکل گزر بسر کرتا ہوں۔ اکثر خشوع خضوع سے دعا مانگتا ہوں کہ اللہ پاک! اہل دانش کی دنیا میں دھکیل دیا ہے تو میری لاج رکھنا، لج پال کے صدقے جاؤں کہ اس نے نہ صرف بھرم بنایا بلکہ ہمیشہ اسے قائم بھی رکھا ورنہ جہالت میں اپنا ثانی کوئی نہیں لیکن جس پر خالق و مالک و رازق مہربان ہو اس کو دن و کم فہم کے تُکے بھی تیر بن جاتے ہیں۔
گزشتہ کالم مِیں مَیں نے اپنی ”فیورٹ“ ن لیگ کو جسٹس قیوم اور شہباز شریف کی مبینہ گفتگو پر مبنی ٹی وی اشتہار پر عدالتی پابندی لگنے پر مبارک باد دیتے ہوئے لکھا تھا… ”ویسے سنا ہے کچھ اور دلچسپ و دلپذیر اشتہار بھی پائپ لائن میں ہیں“
ان سطور کی سیاہی بھی ابھی سوکھی نہ تھی کہ اتوار کی شام مجھے اک اور سنسنی خیز اشتہار ٹی وی پر دکھائی دیا جس میں جسٹس قیوم میاں نواز شریف کے سابق بازوئے شمشیر زن سیف الرحمن کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہیں۔ لوگ پیار سے سیف الرحمن کو احتساب الرحمن بھی کہا کرتے تھے، ساتھ ہی یہ خبر بھی تھی کہ الیکشن کمیشن نے اس اشتہار کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کی فوری بندش کا حکم دیا ہے۔ ماشاء اللہ چشم بددور کہ ہمارے بزرگ الیکشن کمیشن کی چشم بینا کتنی تیز ہے جو پیپلز پارٹی کی ہر شرارت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، یہاں مجھے فلم ”ہیر رانجھا“ یاد آتی ہے جس میں کیدو اپنے ایک نشئی ملازم سے رانجھے پر ”نظر“ رکھنے کے لئے کہتا ہے۔ ملازم کا تاریخی جواب تو آپ کو یاد ہی ہو گا، اگر نہیں تو کسی ایسے شخص سے پوچھ لیں جس نے فردوس اور اعجاز والی ناقابل فراموش ”ہیر رانجھا“ دیکھ رکھی ہو جس میں ملازم کا کردار رنگیلے نے ادا کیا تھا۔
اگلے روز یعنی پیر کی صبح سب سے پہلے ”جنگ“ اٹھایا تو فرنٹ پیج پر ہی رحمن ملک کا یہ نشاط انگیز بیان نظر آیا کہ … ”ن لیگ کے خلاف اگلا ٹیپ زبرست ہے، آج پہلا تحفہ پیش کروں گا“
خدا جانے (ن) لیگ کے میڈیا ایڈوائزر کون ہیں، ایسے ناقابل تردید اور تاریخی اہمیت کے حامل اشتہارات بند بھی ہو جائیں تو بیکار ہے بلکہ بندش زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ جس نے ان کا نوٹس نہیں بھی لینا، اس کے بھی کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل اس محاورے والی حرکت ہے کہ ”نانی نے خصم کیا برا کیا، کرکے چھوڑا تو اس سے بھی برا کیا“… بہرحال پھر وہی بات کہ ”جٹ جانے تے بجو جانے“ (ن) لیگ جانے اور اشتہاری فنون میں اس کے ماہرین کیونکہ مجھے تو پیپلز پارٹی کے اک اخباری اشتہار نے چونکا کر رکھ دیا ہے۔ہم لوگ اکثر عوام کی کمزور یادداشت کا رونا روتے اور ماتم کرتے ہیں جبکہ کم از کم خود میرا اپنا حال عوام سے بھی کئی گنا زیادہ گیا گزرا ہے۔ نواز شریف کا وہ دور حکومت جس میں ان پر ”امیر المومنین“ بننے کا دورہ پڑا ہوا تھا… ملکی تاریخ کا بہت ہی شرمناک اور تاریک ترین دور تھا جس میں آپ نے ہر جگہ چھیڑ چھاڑ اور پنگے بازی کا مشغلہ شروع کر رکھا تھا کیونکہ ”بھاری مینڈیٹ“ کی بدہضمی انہیں چین نہ لینے دیتی تھی۔ مجھے اس دور کے بارے صرف اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ حضور نے فوج سے لے کر عدلیہ تک کہیں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن عجیب بات کو میں کہ میں میڈیا کے ساتھ میاں صاحب کی متکبرانہ وحشیانہ بدسلوکی تقریباً بھول چکا تھا جو پیپلز پارٹی نے تفصیل سے یاد کرا کے میرے زخم ہرے کر دیئے۔ ذرا اندازہ لگائیں جنرل ضیاء الحق کے روحانی سیاسی سپوت کے انداز کیا تھا۔”اخبارات نے دو ماہ بہت عیش کر لی اب ہماری باری ہے“(16-8-98 وزیراعظم نواز شریف”پریس کے خلاف نواز شریف کا اعلان جنگ“(ملک بھر کی اخباری تتنظیموں، ٹریڈ یونینوں کا اعلان ایڈیٹروں کا موقف) ”کاغذ نہ ملا تو ”جنگ“ بند ہو جائے گا“ : جمیل الدین عالی”نقاد صحافیوں کی گرفتاری تشویشناک ہے“ یورپی یونین ایمنسٹی انٹرنیشنل”آدھی رات کو چھاپہ، نجم سیٹھی کو گھر سے گرفتار کر لیا گیا“”سینئر صحافی امتیاز عالم کی نئی کار جلا دی گئی“”مجھے کئی ماہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں“ I G پنجاب کے نام ارشاد احمد حقانی کا خط تھینک یو پیپلز پارٹی”آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا“ کہ نواز شریف کا بھاری مینڈیٹ“ قوم کے لئے کتنا بھاری، کتنا شرمناک اور کتنا تاریک تھا۔ نمرودیت اور فرعونیت کی انتہا دیکھنی ہو تو اس ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو پیش کی گئی یہ مجنونانہ شرائط ملاحظہ فرمائیں۔”16 صحافیوں کو نکال کر ہمارے آدمی رکھیں ورنہ“”آپ کے صحافی اگر باز نہ آئے تو مجھے بتانا، میرے پاس ان کا علاج ہے، اٹھوا بھی سکتا ہوں“”15ویں آئینی ترمیم کے خلاف کچھ نہ چھاپیں“”ہم عدالتی نظام بدلنا چاہتے ہیں۔ ہمارے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلوں پر ہماری حمایت کریں“”کراچی مسئلہ پر بھی ہمارا ساتھ دیں ورنہ…“”حکمران خاندان کے قرضوں، ٹیکس اور ذاتی کاروباری معاملات پر کچھ مت چھاپیں ورنہ…“”ہم دوسرے معاملات پر بھی غیر مشروط حمایت چاہتے ہیں جس کے متعلق وقتا فوقتاً آپ کو ہدایات ملتی رہیں گی ورنہ…یہ بدترین آمریت اور سکھا شاہی تھی، واقعی چھوٹے برتن میں بہت ڈل گیا تھا اور اسی لئے ”بارہ اکتوبر“ ناگزیر ہو گیا۔کیا اس ملک کے عوام اس شرمناک اور تاریک ترین دور کا ایکشن ری پلے چاہتے ہیں؟”نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایاککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا“خدا کے لئے اپنے ”انگور“ … اس ”کیکر“ سے بچاؤ جو مزید زہریلا ہو چکا۔
تازہ ترین