• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کے ”سونامی“ کے بارے میں، میں ہلکی پھلکی گفتگو تو کرتا ہی رہتا ہوں مگر آج کالم نگار کی بجائے تجزیہ نگار بننے کو جی چاہ رہا ہے۔ ان دنوں کچھ تجزیہ نگاروں کے تجزیئے اورپیشین گوئیاں اس قسم کی ہیں کہ انتخابات کے نتائج حیرت انگیز ہوں گے۔ تحریک انصاف تیس سے تین سو تک (کہنے میں کیا حرج ہے؟) سیٹیں جیت سکتی ہے، اگلی حکومت مخلوط بنے گی، وغیرہ وغیرہ جبکہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے پشین گوئیاں اپنی جگہ مگر کچھ اعداد و شمار کاخیال بھی کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں سب سے اہم اعداد و شمار 2008 کے الیکشن سے متعلق ہیں جن کا تجزیہ کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کی رائے قائم کرنے میں آسانی ہو۔
اگر آپ 2008 کے انتخابی نتائج کو دیکھیں تو نہایت دلچسپ صورتحال سامنے آئے گی۔ 2008 میں پنجاب کے قومی اسمبلی کے 20حلقے ایسے تھے جہاں سے ن لیگ اپنا کوئی امیدوار ہی کھڑا نہیں کرسکی جبکہ سندھ اور بلوچستان سے ن لیگ کا کوئی قابل ذکر امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ شریف برادران نے آخری دن جدہ سے لاہور لینڈ کیا تھا، مشرف اس وقت باوردی حکمران تھا] دونوں بھائیوں کو نااہل قرار دیا جاچکا تھا ، ایسے ماحول میں آخری لمحات میں انتخابی مہم چند گنے چنے مقامات پر چلائی گئی۔ اس کے باوجود ن لیگ نے قومی اسمبلی کی 71نشستیں حاصل کرلیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن نشستوں پر ن لیگ نے کامیابی حاصل کی وہاں اس کا مقابلہ بیک وقت پیپلزپارٹی اور ق لیگ دونوں سے تھا مثلاً این اے پچاس راولپنڈی کی سیٹ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی نے 99988 ووٹ لے کر جیتی۔ ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے غلام مرتضیٰ ستی نے 71978 ووٹ لئے اورق لیگ کے جاوید اقبال ستی نے 28188 ووٹ لئے۔ اسی طرح این اے 56 راولپنڈی جہاں سے اس دفعہ عمران خان انتخاب لڑ رہے ہیں 2008 میں یہاں سے ن لیگ کے حنیف عباسی نے 73433 ووٹ لے کر نشست جیتی جبکہ ان کے مقابلے میں پی پی پی کے شفقت حیات خان نے 22720 اور ق لیگ کے شیخ رشید احمد نے 10964 ووٹ لئے۔ یہ دیگ کے صرف دو دانے ہیں جن سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ خاص طور سے پنجاب کی جن قومی اسمبلی کی نشستوں پر ن لیگ نے کامیابی حاصل کی وہاں اس کی جیت کا تناسب تقریباً ایک جیساتھا۔ 2008 میں ن لیگ نے کل 6.78 ملین جبکہ ق لیگ نے 7.99 ملین ووٹ حاصل کئے۔ اس دفعہ ق لیگ وہ امیدوار جنہوں نے یہ ووٹ 2008 میں Electable ہونے کی بنیاد پر حاصل کئے تھے ن لیگ کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔چنانچہ این اے 48 اسلام آباد سے لے کر این اے 197 رحیم یار خان تک لگ بھگ ڈیڑھ سو نشستوں پر ن لیگ کے سامنے ق لیگ کا مقابلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماسوائے چوہدری برداران کی چند سیٹوں کے۔ رہی بات پیپلزپارٹی کی تو پنجاب کی ان ڈیڑھ سو نشستوں پر خود پیپلزپارٹی کو پندرہ سے بیس سیٹوں سے زیادہ کی امید نہیں۔
یہ بات یقینا درست ہے کہ 2008 میں تحریک انصاف کا فیکٹر موجود نہیں تھا جو اب بہرحال موجود ہے۔ تحریک انصاف نے ن لیگ کے لئے یقینا مشکلات پیدا کی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے سیاسی مستقبل کیلئے خوش آئند بھی ہے۔ جہاں ایک اور سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے مگراس جماعت کا المیہ یہ ہے کہ اگر یہ جماعت ان انتخابات میں حکومت حاصل نہ کرسکی تو پھر اس کے چاہنے والوں میں اتنا صبر اور تحمل نہیں کہ وہ سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کریں۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کی طرح کوڑے کھانے کا حوصلہ ان میں نہیں اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی طرح یہ مصائب برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ انتخابات کے اگلے روز ٹائی باندھ کر اپنے دفتر روانہ ہوجائیں گے۔ جہاں تک 2013 کے انتخابات کا تعلق ہے تو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کیلئے ایک حلقے سے 70000 سے 80000 ووٹ لینے پڑیں گے۔ کیا تحریک انصاف کے پاس یہ میجک لیٹرن ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لئے ہمیں پھر چند حقائق سامنے رکھنا پڑیں گے۔ وفاق میں حکومت بنانے کے لئے پنجاب میں جیتنا ضروری ہے اور پنجاب میں ن لیگ 2008 میں جس تناسب کے ساتھ جیتی وہ تناسب ق لیگ کے 7.99 ملین ووٹ بکھرنے کی وجہ سے پہلی سے کہیں بہتر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سارے ووٹ ن لیگ کی جھولی میں آ گریں گے حالانکہ غالب امکان یہی ہے۔اسی طرح تحریک انصاف پنجاب کے ان شہری علاقوں میں مقبول ہے جہاں اربن مڈل کلاس بستی ہے۔ ان علاقوں میں فرض کریں تحریک انصاف کا ووٹ چالیس سے پچاس ہزار تک بھی ہے لیکن سوال پھر یہی ہے کہ کیا یہ وننگ مارجن ہے؟ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب کی 11 نشستوں پر کوئی امیدوار نہیں مل سکا ۔اسی طرح سندھ کی 60نشستوں اور بلوچستان کی 16 نشستوں پر بھی تحریک انصاف کوجیت کی امید ہے نہ ان کے پارٹی لیڈران کو اپنے امیدواروں کے ناموں کا پتہ ہے چنانچہ ان 87 نشستوں پر تحریک انصاف کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ تحریک ِ انصاف اگر ”سونامی“ لے آئے تو سونامی کی یہ تباہی زرداری صاحب کی صورت میں قوم کا مقدر بنے گی۔ کسی کو اس میں کوئی ابہام ہے تو کیلکولیٹر کی مدد سے ایک مرتبہ پھر ان نشستوں کی جمع تقسیم کرکے دیکھ لے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔ کون کہتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی الیکشن مہم نہیں چلا رہی پیپلزپارٹی کی الیکشن مہم عمران خان چلا رہے ہیں۔ چلیں ایک منٹ کے لئے فر ض کریں عمران خان کی جگہ آصف علی زرداری اگر جلسے سے خطاب کرتے تو کیسی تقریر کرتے بالکل ویسی ہی نا جیسی اب عمران خان کر رہے ہیں۔
تازہ ترین