• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر ہے اس منحوس سال میں یہ اچھی خبر آئی کہ امریکہ کا بھاری پتھر ہٹ گیا ہے۔ ہر چند کہ پاکستان میں تو ساری حکومتیں ہی بھاری پتھر ثابت ہوئیں، مگر اب لگتا ہے کہ قرب قیامت ہے۔ اسلام آباد میں جبکہ دنیا بھر کے اقبالیات کے ماہر جمع ہوں، وہاں سرکاری ٹی وی پر علامہ اقبال کا وہ نواسہ بول رہاتھا جس نے لگتا تھا کہ صرف علامہ اقبال کا نام گھر میں سنا تھا ۔ آدھے گھنٹے میں ایک فقرہ بھی ایسا نہ بولا کہ اسکی علمیت ظاہر ہوتی۔پہلے تو یہ کام فیض صاحب کے نواسے کرتے تھے۔ اب یہ چلن میرا خیال ہے عام ہو جائیگا مگر کیسے کہ حکومتی وزیر جس کے ہاتھ میں بوتل تھی جسکو اس نےشہد بتایا تھا۔ وہ غلیظ باتیں عورتوں کے متعلق سرعام کررہا ہے۔ کسی میڈیا نے اسکی جہالت اور غلاظت کو اسطرح بند نہیں کیا جیسا کہ اکثر لوگوں کی گفتگو میں ایک دم خاموشی اور پھر گفتگو رواں ہوجاتی ہے۔ اسکی گفتگو کو بی بی بشریٰ نے سنا نہیں ، مجھے یقین ہے وہ اسکی سرزنش ضرور کرتیں۔

علامہ اقبال پہ گفتگو کرنے کے لئے ساری دنیا کے ماہرین آتے ہیں مگر کانفرنس بجائے کنونشن سینٹر کے پریذیڈنسی میں ہورہی ہے۔ اگر یہ کانفرنس کنونشن سینٹر میں ہوتی اور تمام نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بلایا جاتا توشاید وہ اقبال کی حکمت اور اس وقت میں ضرورت کو سمجھ پاتے۔مگر جیسا کہ ضمیر جعفری نے لکھا تھا کہ ہم نے پہلے تو علامہ اقبال کو قوالوں کے حوالے کردیا۔ وہ گاتے ہوئے بار بار کہتے’’ خودی نہ بیچ،خودی نہ بیچ ۔اب کے قوالوں نے یہ مصرعہ ادا کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کئی دفعہ پڑھے لکھے لوگوں کو ٹی وی پہ علامہ اقبال کا یہ شعر سنانے کو کہا جائے، تو وہ لب پہ آتی ہے… سناکر داد حاصل کرلیتے ہیں۔ نصاب میں شامل چیزیں کبھی یاد نہیں ہوئیں ایک اور چینل لگایا وہاں ایک خاتون علامہ اقبال پر بول رہی تھیں، وہ بال جبریل کو ہر دفعہ بال ’’جبرائیل‘‘ کہہ رہی تھیں اور اینکر ان کو داد دے رہی تھی۔ اب سوچیں ہم نے 146سال میں علامہ اقبال کو اتنا سمجھا ہے۔ ہر پروفیسر نے ضرور علامہ اقبال پر اپنی قابلیت کے مطابق کتاب لکھی ہے۔ کوئی ایک کتاب ہی پڑھ لیا کریں۔ یہ بات علامہ اقبال کے نواسے نے صحیح کہی کہ علامہ کا آدھا کلام تو فارسی میں ہے اور فارسی ہمارے ملک میں پڑھائی ہی نہیں جاتی۔ پتہ نہیں کیوں۔ہم تو اپنے بچپن میں سعدی کی حکایتیں پڑھ کر ہی بڑے ہوئے تھے۔ یہ نصاب کمیٹی کونسی ہے جو نصاب میں تبدیلی کرتے ہوئے انگریزی کو لازمی کہہ رہی ہے مگر فارسی کو نہیں تو پھر علامہ اقبال اور غالب کو لوگ کیوں اور کیسے سمجھیں گے؟

آئیں اب ذرا امریکی خاتون کملا ہیرس کے ڈپٹی پریزیڈنٹ بننے پر خوشی اور پھر عورتوں کا اسکی باتیں سن کر خوشی سے رونے اور تالیاں بجانے کے منظر نے مجھے بے نظیر کے پہلے دور کو یاد کرادیا ہے۔ ہم کتنے خوش نصیب تھے اور ہم کتنےبد نصیب ہیں کہ ہمارے لوگوں نے لیاقت علی خان، بھٹو صاحب اور بے نظیر کو مار ڈالا۔ قاتلوں کا علم سب کو ہے مگر کسی کانام کوئی بھی نہیں لیتا۔نصاب کی کتابوں میں اب تین ناموں کی زندگی اور موت کے بارے میں ایسا ہی لکھا جاتا ہوگا، جیسے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں ایک لائن میں لکھا جاتا ہے ’’ وہ بنگلہ دیش بن گیا‘‘۔ مگر میں نے ایک دفعہ لیکچررز کا انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ بنگلہ دیش بننے سے پہلے اس علاقے کا کیا نام تھا؟ گیارہ خواتین انٹرویو کے لئے آئی تھیں۔ ایک بھی نہیں بتا سکی ۔ یہ ہے ہماری مجموعی اہلیت؟

چند دن ہوئے خوشاب میں طے ہوگیا کہ ایک گارڈ ، اپنے منیجر کو دشنام گوئی کا الزام لگاکر ، قتل کرسکتا ہے اورتمام مذہب کے نام لیوا اسکو شاباش دیتے ہوئے جلوس نکال رہے تھے ۔ اس کم عقل اور زودرنج رویے کے خلاف خود ہمارے وزیر اعظم نے بھی محتاط طریقہ پر ناراضی کا اظہار کیا ہے اوربو سنیا کے صدر کے ساتھ اسلامو فوبیا کو ختم کرنے کے کیلئے مثبت اقدامات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ایک اور دل دہلادینے خبر یہ ہے کہ کراچی کا ٹرانسپورٹ سسٹم بدترین قرار پایا ہے۔ ساتھ ہی تو میں نے خود دیکھا ہے سندھ میں بے شمار اسکولوں کی مکمل عمارت میں باتھ روم تو الگ بات ہے، بچوں کے بیٹھنے کیلئے ڈیسک ہی نہیں ہیں جو استاد ریٹائر ہوتا ہے، پھر ملازم رکھ لیا جاتا ہے کہ نئے ٹیچرز بھرتی نہیں کئےجارہے بالکل ایسا ہی منظر ، بلوچستان میں بھی دیکھا گیا ہے۔ اگر عمارت ہے تو دیواروں کا پلاسٹر اترا ہوا ہے۔ پنجاب میں بھی وڈیروں کے باڑے اسکولوں میں ہیں اور بچے درخت کے نیچے زمین پر بیٹھ کر جو کچھ بھی ملتا ہے، اسے تعلیم کہتے ہیں۔ ویسے تو دہلی، دنیا کا غلیظ ترین شہر قرار پاچکا ہے۔ چلو سمجھو کہ وہاں لوگو ں کو گدھی کا دودھ اور گائے کاپیشاب پینے سے فرصت نہیں ہے، مقابلہ کریں تو پاکستان میںگلگت اور ہنزہ میں90فی صد لوگ پڑھے لکھے مل جا ئینگے ،چترال کی لڑکی نے جو جہاز حادثے میں مر گئی اس نے ڈاکٹریٹ کیاتھا ۔ ہم ایسے پڑھے لکھے تو نہیں، دساور سے لوگ بلواکر پاکستان کی نفسیات اور زراعت کو جانے بغیر کبھی شوکت صاحب کسی حفیظ صاحب اور آخرمیں آزمائے ہوئے غالب دان کو تیسری دفعہ مالیات کے نصیب ٹھکانے لگانے کے لئے بلایا گیا ہے۔

ہمارے زیادہ تر بچے سندھ کی آرزو کی طرح شادی کے خواب دیکھتے ہوئے بھاڑ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ لڑکی جسے مبینہ طور پرزبردستی مسلمان کیا گیا جس کی عمر14ہے وہ کہہ رہی ہے میں18سال کی ہوں ،مجھے اپنے شوہر کے ساتھ جانے دیا جائے ۔یہ ہے نتیجہ فیس بک، ٹک ٹاک اور دکھائے جانے والے تھرڈ کلاس ڈراموں کا۔ پطرس نے تو کہاتھا مجھے میرے دوستوں سے بچا ئواور میں کہہ رہی ہوں مجھے نہیں ’’سارے پاکستان کو میڈیا سے بچائو‘‘۔

تازہ ترین