• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوٹو گینگ کے سرغنہ نے ہتھیار ڈالنے کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہتھیار ڈال دوں تو چوہدری نثار یقین دلائیں کہ ہمارے گناہوں کی سزا بھی فوجی حکام ہی دیں گے۔دوسری طرف غلام رسول عرف چھوٹو کی بہن نے اسے پیغام دیا ہے کہ وہ فوج سے لڑائی نہ کرے اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ کوئی ملزم خود کو سول عدالت میں پیش کرنے کی بجائے فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کا خواہش مند ہے۔ ان بہن بھائیوں کے بیانات کا بعد عدلیہ اور پولیس کو اپنے بارے میں سوچ بچار کرنا چاہئے۔ ویسے سارے چھوٹو گینگ عنقریب فوج کے سامنے سرنڈر کرنے والے ہیں۔
میاں نوازشریف کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ ’’مرد بحران‘‘ اور ’’قسمت کے دھنی ‘‘ہیں۔ ان باتوں میں کافی حد تک صداقت پائی جاتی ہے۔ تقدیر ہمیشہ ان پر مہربان رہی‘ خوش قسمتی نے کبھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ‘ قسمت جتنی بھی اچھی ہو وہ اپنے حسن تدبیر سے بحران پیدا کرنے اور اس میں گھر جانے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ یقیناً مردِ بحران کہلائے جا سکتے ہیں۔ خود اپنے لئے بحران پیدا کرنے کیلئے انہیں زیادہ سے زیادہ چار چھ مہینے کی مہلت درکار ہوتی ہے۔ ’’بلا‘‘ آسمانوں سے نازل ہو یا ان کی اپنی پیدا کردہ، اس میں سے نکلنے کیلئے ہمیشہ کسی بالادست ادارے یا شخصیت نے ان کی مدد کی‘ کسی بھی مشکل کو ازخود حل کرنے میں وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ جس طرح سیاست میں ان کا ’’ورود‘‘ فوج کی وجہ سے ہوا‘ اسی طرح اکثر مشکلات میں فوج کی قیادت نے انہیں اپنا کاندھا پیش کیا۔ پینتیس سالہ سیاسی زندگی میں پہلا بحران ان کی اولین وزارت اعلیٰ کے دوسرے سال پیش آیا۔ جب وزیراعظم محمد خان جونیجو اور پیر پگارا انہیں وزارت اعلیٰ سے نکالنا چاہتے تھے تو اس وقت ضیاء الحق‘ جو صدر مملکت کے ساتھ فوج کے سربراہ بھی تھے‘ وہ مدد کو آئے‘ لاہور آ کر انہوں نے کہا کہ نوازشریف کا ’’کلہ‘‘ مضبوط ہے‘ ایسے طاقتور ہاتھوں ٹھکا ہوا ’’کلہ‘‘ کون اکھاڑ سکتا تھا۔
دوسرا بحران ضیاء الحق کی شہادت کے بعد انتخابات کا مرحلہ تھا۔ جب بینظیر بھٹو جلاوطنی سے واپس آ کر مدمقابل ہوئیں ‘ تو سب کچھ نوازشریف کے ہاتھ سے نکلا جاتا تھا۔ تب جنرل حمید گل کی سربراہی میں آئی ایس آئی اور فوج کے کمانڈر انچیف اسلم بیگ مدد کو آئے‘ جونیجو سے صلح کروائی ‘ عبوری مدت کیلئے ان کی مرضی سے وائیں کو وزیراعلیٰ بنایا اور انہیں پابند کر دیا گیا کہ وہ ان کے بھائی شہباز شریف کی ہدایت کے مطابق حکومت چلائیں۔ آئی ایس آئی نے دوسری جماعتوں کی حمایت دلائی ‘ مقدور بھر دھاندلی کے بعد مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوئی کہ حکومت بنائی جا سکے تو آزاد ممبرا ن اسمبلی کو اکٹھا کر کے نوازشریف کی تحویل میں دیا۔ مرکز میں بینظیر پر دبائو رکھا گیا تاکہ وہ لاہور آکر وزارت اعلیٰ کیلئے جوڑ توڑ نہ کر سکے۔ تیسر ابحران اس وقت پید اہوا جب بینظیر نے ان کی وزارت اعلیٰ پر شب خون مارنے کی تیاری کی‘ سنگھاسن ڈولنے لگا تو فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے ایک دفعہ پھر لاہور آکر ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے نوازشریف کی حمایت میں زور دار بیان داغ دیا۔ پھر کس ممبر اسمبلی کی مجال تھی کہ وہ نوا زشریف کو پیٹھ دکھاتا۔ دو سال کی وزارت عظمیٰ کے بعد بینظیر کی حکومت ختم کی گئی تو فوج کے سربراہ مرزا اسلم بیگ کے حکم پر آئی ایس آئی کی مدد سے سیاسی اتحاد قائم کیا گیا۔ بینظیر کو کرپشن کے الزامات نے رسوا کیا ‘ الیکشن کمیشن ہموار رکھا‘ غلام مصطفیٰ جتوئی اور دیگر سیاسی قائدین کو راہ سے ہٹایا‘ صدر پاکستان غلام اسحق خان نے محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ سے دستبردار کروایا‘ اس طرح نواز شریف پہلی دفعہ وزیراعظم بن پائے تھے۔ ابھی یہ اعلیٰ عہدہ سنبھالے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ فنانس کارپوریشنوں کا اسکینڈل منظرعام پر آیا جس میں نواز شریف ان کے بھائی کی نجات ممکن نہ تھی‘ مگر غلام اسحق خان نے انہیں ایک مرتبہ پھر ’’بیل آئوٹ‘‘ کیا۔
اس طرح ایک بحران میں آصف جنجوعہ نے مدد کی‘ غلام اسحق کے ساتھ ’’جھگڑے‘‘ میں سپریم کورٹ نے تعاون کیا‘ اگلی وزارت عظمیٰ کیلئے عابدہ حسین نے صدر مملکت فاروق حسین لغاری کو ان کی حمایت کیلئے تیار کیا‘ الیکشن میں پڑنے والے ووٹوں کو 26 فیصد سے 45 فیصد بنا کر ان کو تقویت بخشی‘ سپریم کورٹ کی گرفت میں آئے تو اسی عدالت کے بعض سینئر ججوں نے اپنے ہی چیف جسٹس کو دھوکا دیا اور ادارے سے بے وفائی کر کے خوش قسمت سیاستدان کی نااہلی کو ٹال دیا ‘ پرویز مشرف کے چنگل سے امریکہ نے نکالا‘ پناہ سعودی عرب نے دی اور آج پھر امریکہ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ خفیہ معاہدوں کے نتیجے میں تیسری وزارت عظمیٰ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اپنی سیاسی زندگی کے سب سے کڑے امتحان کو دروازے پر دستک دیتے پایا۔
موجودہ بحران ان کی زندگی کا سب سے خطرناک واقعہ ہے۔ اس لئے کہ اس کی بین الاقوامی اہمیت ہے اور اس بحران کا اخلاقی پہلو زیادہ نمایاں ہے‘ اس اخلاقی پہلو کو امریکہ اور یورپ سمیت کوئی ملک نظرانداز نہیں کر سکتا‘ بہت سے ملکوں کے سربراہ اور حکومتوں کے اہم عہدیدار مستعفی ہو رہے ہیں‘ جن پر کوئی الزام نہیں وہ بھی اپنے اثاثے ظاہر کر رہے ہیں‘ جن میں امریکہ اور روس کے صدور بھی شامل ہیں۔ الزامات منظر پر آنے کے بعد دوسرے ملکوں کے سربراہ ہمارے وزیراعظم سے نظر چرائیں کہ ان کی قانونی حیثیت مشکوک اور اخلاقی حالت قابل رحم ہے‘ بوکھلاہٹ اتنی غیرمعمولی ہے کہ انگلستان میں عمران خان کی سابق بیوی کے گھر کے باہر فرمائشی احتجاج امریکہ و یورپ میں ’’جگ ہنسائی‘‘ کا باعث بن رہے ہیں۔اس لئے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما کی سابق اہلیہ جس کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں ‘ کے خلاف احتجاج کا مطلب کیا ہے؟ ان عجیب و غریب احتجاجیوں کا مطالبہ کیا ہے؟ یہ کہ مدمقابل سیاسی رہنما بدعنوانی کے الزامات پر سپریم کورٹ کے ججوں سے انکوائری کروانا چاہتے ہیں؟ دنیا بھر میں کون حکمران یا سیاسی رہنما ہوگا جو اس مطالبہ کو ناجائز کہے اور اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کرے۔ ’’پاناما ‘‘ میں ظاہر ہو جانے والی خفیہ دستاویزات‘ وزیر خزانہ اسحق ڈار کا اقبالی بیان‘ خاندان کے افراد کے متضاد دعوے‘ ان دستاویزات کی روشنی میں دیئے گئے بینک اکائونٹ اور دونوں بڑے لیڈروں کا کم ازکم ایک ایک بینک اکائونٹ تقریباً ہر ٹی وی چینل کے میزبان کی میز پر رکھا ہے‘ صرف ایک اکائونٹ میں 1.4 بلین ڈالر اور دوسرے میں 1.8 بلین ڈالر جمع تھے‘ اب نہ بھی رہے ہوں تو فرانزک ایکسپرٹ انہیں ایک ہفتے میں ڈھونڈ نکالیں گے۔ ملک کے اندر اس واقعہ کی سیاسی اور قانونی حساسیت اور بین الاقوامی سطح پر اس کا اخلاقی پہلو اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی بھی سربراہ حکومت بقائمی ہوش و ہواس اس طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ پاکستان میں اثر و رسوخ کے اعتبار سے آج بھی فوج کا سربراہ ہی سب سے بااثر اور طاقتور شخصیت کہی جا سکتی ہے ‘ لیکن موجودہ حالات میں وہ ضیاء الحق اور اسلم بیگ کا کردار نہیں نبھا سکیں گے۔ ماضی میں نوازشریف کا مقابلہ بینظیر یا آصف زرداری کی پیپلز پارٹی سے رہا ہے‘ جس کی اخلاقی حالت اپنے مدمقابل سے بہتر نہ تھی اور ملک کی سلامتی کے ادارے انہیں بدعنوان کے علاوہ سیکورٹی رسک قرار دیتے رہے‘ انکے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کیلئے مسلم لیگ(ن) زیادہ قابل اعتبار تھی‘ ویسے پیپلزپارٹی خو دبھی کوئی بڑا قدم اٹھانے کو کبھی تیار نہیں ہوئی‘ وہ صرف اپنی باری کیلئے واویلا کیا کرتی۔ اب مقابلہ عمران خان سے آن پڑا جو اپنی دھن کا پکا ہے اور عوام کے ایک بڑے حلقے میں اسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہے‘ جدید تعلیم یافتہ خان یورپ میں ہر طرح کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ملک کے اندر نوجوانوں کو متحرک کر کے طوفان اٹھانے کی اہلیت جس قدر اسے حاصل ہے اس کا کوئی جواب حریفوں کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف ہمیشہ سے زیادہ فکرمند اور ان کے ساتھ مفاد کے ساجھے دار بوکھلائے پھرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کا مطالبہ ایسا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی ذی شعور اس کے درست اور جائز ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔ امریکی صدر باراک حسین اوباما سے جنرل راحیل شریف تک۔
تازہ ترین