• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب کا دورہ کیا یہ دورہ انہوں نے کنگ سلمان بن عبدالعزیز کی خصوصی دعوت پر کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورے کے حوالے سے پاکستان اور بھارتی میڈیا پرمختلف اسٹوریز اور تبصرے کئے گئے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ سعودی عرب بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات مزید استوار کر رہا ہے اور سعودی عرب بھارت کی بڑی تیل منڈی میں اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نریندر مودی کی دورہ سعودی عرب کے دوران کنگ شاہ سلمان سے ون ٹو ون ملاقات بھی ہوئی جس کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے اچانک بھارتی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس دورے میں دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کے نقصانات جیسے معاملات زیر بحث رہے۔ مودی کے دورے کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ سعودی عرب کا غیر معمولی دورہ کیا۔پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف کے دورہ سعودی عرب کے بعد بھارتی وزیراعظم کااچانک دورہ کرنا ایک غیر معمولی عمل ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب میں دہشت گردی کے بین الاقوامی ناسور سے نمٹنے کیلئے جس قسم کا پاکستان سے تعاون درکار ہے وہ پاکستان تب تک نہیں دے سکتا جب تک مشرقی سرحدیں سکون میں ہوں اور وہاں کسی قسم کی کشیدگی نہ ہو۔اطلاعات آرہی ہیں کہ سعودی عرب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے اسلامی اتحاد میں پاکستان کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے کیونکہ ریاض سمجھتا ہے کہ پاکستان کے بغیر دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ تقریباً نا ممکن ہے اور پہلی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ سعودی عرب اپنے دفاع اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مغرب کی بجائے اسلامی بلاک کو ترجیح دے رہاہے جو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا واضح اشاریہ ہے۔میری معلومات کے مطابق سعودی حکومت نے بھارتی وزیراعظم پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کی کشیدگی سے دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا وہ پاکستان کے ساتھ اپنی نہ صرف کشیدگی کم کرے بلکہ باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرے۔ بھارت کو یہ بھی باورکروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مضبوط پاکستان خطے کے استحکام کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔پاکستان میں انتشار ‘دہشت گردی اور پاکستان کی سرحدوں پر کشیدگی خطے کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔لہٰذا پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو اپنی پالیسی ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔جس کے بعد دونوں ملکوں کے سربراہوںنے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ نہ جوڑا جائے اور اسکے خاتمے کیلئے اقوام عالم کو یکجا ہو کر مضبوط کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب چین کی طرز پر مستقبل قریب میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یہ سرمایہ کاری پاکستان کے بنیادی ڈھانچے زراعت ، صنعت اور خاص طور پر دفاعی صنعت پر کی جائے گی۔اس سرمایہ کاری کا حجم 50ارب ڈالر تک ہوسکتا ہے اس سرمایہ کاری کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اشارہ دیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں چین کے طرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتاہے اس لئے اب ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کی مزید ضرورت نہیں رہے گی اور اس سال کے آخر تک پاکستان کی آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی۔ سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ سے ہی مخلص اور سچا دوست بلکہ بڑے بھائی کا کردارادا کرتا رہاہے۔ سابقہ وزیراعظم مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو کی اسلامی دنیا کو یکجا کرنے کی کوشش ہو ۔ روس کے خلاف پاکستان سرحدکے قریب افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ ہو یا 1998ء میں پاکستان کی ایٹمی قوت بننے کے بعد پاکستان پر عالمی پابندیاں ہوں ہر موقع پر سعودی عرب نے بڑا بھائی بن کر ساتھ دیا ہے۔موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے فوراً بعد سعودی عر ب نے موجودہ حکومت کی مالی مشکلات میں کمی کرنے کیلئے دو ارب ڈالر کی خطیر رقم امداد کے طور پر حکومت پاکستان کو فراہم کی۔ مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسی طرح ریاست پاکستان بھی ہر مشکل گھڑی میں سعودی حکومت کے نشانہ بشانہ کھڑی نظر آئی ۔ خواہ وہ اسرائیل عرب تنازع ہو یا عراق کویت جنگ ہو اورحال ہی میں یمن کی خانہ جنگی کے باعث سعودی عرب کی سرحدوں کے غیر محفوظ جیسے معاملات ہوں پاکستان کا موقف ہمیشہ یکساں رہا ہے کہ حرمین شریفین کا دفاع پاکستان کرے گا سعود ی عرب کا دشمن پاکستان کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ سعودی عرب پر ہونے والے حملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جائیگا۔یمن تنازع کے باعث سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ پاکستان کیلئے دونوں برادر اسلامی ممالک کے مابین اس تنازع کو حل کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی اورہمارے سول و فوجی سربراہ نے مل کر اس کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ ایران اورسعودی عرب کا دورہ کیااورکوشش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جاسکے اور اس میں ریاست پاکستان کوخاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ عرب دنیا کو اس وقت دہشت گردی سمیت دیگر شدید خطرات لاحق ہیں اس کے پیش نظر سعودی عرب سمیت عرب خطے کی نظریں پاکستان کی طرف مرکوزہیں ۔ عرب دنیا سمجھتی ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس لئے عرب دنیا پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ خطہ عرب چاہتا ہے کہ پاکستان ان ممالک میںانٹیلی جنس کے نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنانے کیلئے ان کی مدد کرے اس کے علاوہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ان کی فورسز کو وہ اعلیٰ تربیت دے جو پاکستانی فورسز کا طرٰہ امتیاز ہے۔پاکستان کو اپنے برادر اسلامی ممالک خاص طور پر عرب خطے کی ہر طرح سے مدد کرنی چاہئے لیکن خطے کے ایک اہم ملک ایران کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جو کچھ بھی مدد فراہم کرے گا اس میں ایران کے مفادات کو نقصان نہیںہوگا۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب عرب دنیا کا اہم ملک ہونے کی حیثیت سے کوشش کررہاہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم سے کم کیا جائے۔ آنیوالے دنوں میں اس حوالے سے مزید اقدامات ہوتے بھی نظر آئیں گے۔ میں ہمیشہ سے اپنے کالموں میں یہ بات لکھتا آیا ہوں کہ پاک چین راہداری پاکستان کی شہ رگ بننے جا رہی ہے اور اطلاعات ہیں کہ اس میں سعودی عرب بھی شامل ہونا چاہتا ہے یہ راہداری نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی تقدیر بدل دے گی ۔ میں یہ بھی کہتا آیا ہوں کہ اس منصوبے کے خلاف بھی بین الاقوامی سازشیں ہوں گی بطور قوم ہمیں اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ پاناما لیکس میں سعودی عرب ، پاکستان اور چین میں حکومت کرنیوالی شخصیات کو بلواسطہ یا بلا واسطہ اسکینڈل میں شامل کیا گیا ہے اس کو اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے واقعی ایک بین الاقوامی سازش ہو۔ حکومت پاکستان نے پاناما لیکس کے حوالے سے بروقت جوڈیشل کمیشن بنانے کاجو فیصلہ کیا وہ خوش آئند ہے اورامید کی جاتی ہے کہ پاکستان جلد اس اسکینڈل سے آگے بڑھے گا اور اس اسکینڈل کے جو محرکات ہیں سامنے آئیں گے اور اگر کوئی پاکستانی خواہ وہ حکمران کے خاندان کا حصہ ہی کیوں نہ ہو اس نے اگر کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ میری پاکستان کی سیاسی جماعتوں، دانشور، تجزیہ نگاروں سے درخواست ہے کہ وہ اس ایشو پر ضرور اپنے رد عمل کا اظہارکریں اور سیاستدان اپنی سیاست چمکائیں لیکن کسی ایسی سیاست کا حصہ نہ بنیںجس سے پاکستان کو نقصان پہنچنےکا اندیشہ ہو۔
تازہ ترین