• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن کمیشن کی گہماگہمی پنجاب میں تو دیکھنے میں آرہی ہے جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، نہلے پہ دہلے کا کھیل کھیلا جارہا ہے، ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا ہے۔ عمران خان جوش و خطابت میں شیر کے شکاری بن گئے ہیں اور دعویدار ہیں کہ اُن کے 75 لاکھ ممبران بن چکے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور متحرک عمران خان ایک دن میں پانچ پانچ جلسوں سے خطاب کررہے ہیں، پنجاب کے ہر ضلع میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی نظر آرہی ہے اور کہیں کہیں پاکستان پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی بھی کامیابی کی امید باندھے ہوئے ہیں۔ تو یہ چومکھی مقابلہ ہے، حیرت انگیز طور پر تحریک انصاف کا گراف اونچا اُٹھتا چلا جارہا ہے، اگرچہ کراچی کے سابق ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ایک ایسی پارٹی ہے جس کا گراف اُونچا گیا اور پھر نیچے آگیا، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ اِس حد تک تو درست ہے کہ گراف نیچے آیا مگر یہ وہ وقت تھا جب ہم اپنے اندر کی تنظیم کو مضبوط کررہے تھے اور اب ہمارا گراف پھر سے اونچا اُٹھ رہا ہے یہ بات بظاہر ٹھیک نظر آرہی ہے۔ عمران خان کی اپیل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور نوجوان، مرد اور خواتین اُن کی تحریک کو سہارا دے رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ باری لینے والے خاندانی و موروثی سیاست کے علم برداروں کو اب خیرباد کہنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو عوامی سطح پر استوار کرنا چاہئے یہ حکومت کرنے آتے ہیں تو اپنا خاندان ساتھ لاتے ہیں۔ اپنے بھائی، بہنوں کو وزیر یا اعلیٰ عہدوں سے نوازتے ہیں، میری سیاست نہ موروثی ہے اور نہ برادری کی ہے، یہ عوامی پارٹی ہے اور لگتا ہے کہ اُن کے دانشوروں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے جے اے رحیم کی طرح پارٹی کے دستور اور پارٹی کے نظام کو درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
خود عمران خان کو دو مرتبہ صدر بننے کے بعد تیسری باری لینے کی اجازت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں اُن کی اپیل بڑھ رہی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے حق میں ووٹ ڈلوانے کے لئے جیسے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم متحرک ہوگئے ہیں اور اس وقت پاکستان کے قیام کیلئے یکجا ہوئے تھے۔ اس دفعہ وہ پاکستان کو بچانے کے لئے جمع ہوئے ہیں اور نوجوان اگر عمران خان کی طرف مڑگیا تو فضا یکسر بدل جائے گی، دوسری طرف خطرات یہ بھی ہیں کہ پارٹی ہائی جیک نہ ہو جائے۔ خود عمران خان کے صاحبزادے باہر رہتے ہیں لوگوں کی دولت تو اُن کی اولاد باہر ہے،معترضین جمائمہ کے اثر کو بھی زیربحث لاتے ہیں۔
پھر یہ بھی تو ہے کہ جہاں نواز شریف تین قومی ہیروؤں میں سے ایک ہیں، ذوالفقار علی بھٹو پھر ڈاکٹر قدیر خان اور نواز شریف کہ ایٹمی پروگرام کو شروع کرنے والے ، ایٹم بم تیار کرنے والا اور دھماکہ کرنے والا جس کی سزا اُن کو امریکہ نے جلاوطنی کی صورت میں دی اور اُنہی لوگوں کہ ذریعے دی جن کے پاس یہ ہتھیار دفاع کے لئے موجود رہے گو جنرل پرویز مشرف مکافات کے عمل سے گزر رہے ہیں مگر کئی لوگ اسے ٹوپی ڈرامہ کہہ رہے ہیں اور 30/اپریل کے چیف آف آرمی اسٹاف کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ اس طرح انہوں نے جنرل مشرف کی حمایت کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں اُن کے بارے میں اس طرح کا احساس ہے اور خیال ہے کہ بالآخر ملک کی باگ ڈور اُن کے ہاتھوں میں آجائے گی۔ ہنوز دلّی دور است کے مصداق ہے اِس وقت تو پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میدان عمل میں ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تحریک طالبان پاکستان نے پی پی پی، اے این پی اور ایم کیوایم کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں دقت کا سامنا ہے پھر بھی وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے مگر وہ اِس خطرے سے دوچار ہے کہ کراچی کی 20 نشستوں میں ان کی17 نشستوں میں سے کچھ جماعت اسلامی اور دوسری پارٹیاں لے جائیں گی۔ صوبائی نشستیں اور قومی اسمبلی کی سیٹوں میں کمی کے امکانات موجود ہیں تاہم ایم کیو ایم کے پاس یہ جواز موجود ہو گا کہ اُن کی انتخابی مہم چلانے میں رکاوٹ ڈالی گئی۔
اگر مرکزی حکومت بنانے کی بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) اور عمران خان دونوں قومی اسمبلی کی 130 سیٹیں لینے کی بات کررہے ہیں۔ جس تیزی سے عمران خان متحرک ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 20، 30 سیٹوں سے زیادہ لینے کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم وہ پنجاب کے علاوہ مرکز میں حکومت بنانے کے لئے شاید مسلم لیگ کو پی پی پی، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور ایم کیوایم کی ضرورت پڑے۔ جماعت اسلامی تو ان کا ساتھ دے سکتی ہے کیونکہ سندھ میں ان کے درمیان اتحاد و اتفاق ہے۔ مسلم لیگ (ن) اگرچہ مکمل حالت مقابلہ میں ہے اور سندھ سے پیر پگارا کی جماعت بھی اُن کی اتحادی جماعت ہے۔ اس طرح پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں مسلم لیگ اور اُس کے اتحادی جیت کر آرہے ہیں اس لئے امکان ہے کہ نوازشریف ہی حکومت بنائیں گے اور عمران خان اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ ویسے بھی بلّے سے شیر کا شکار نہیں کیا جاسکتا تاہم الیکشن سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی ہے کہ جو اندازہ لگایا جارہا ہے وہی ہو کر رہے گا۔ خدشات ہیں، مشکلات ہیں، مقابلہ ہے، میدان میں شیر، تیر اور بلا ہے۔ تیر سب کو نشانے پر رکھ سکتا ہے یا جوڑتوڑ، خریدو فروخت کر کے لوگوں کا نشانہ لگا سکتا ہے۔
تازہ ترین