• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگ سمجھتے ہیں جمہوریت الیکشن اور ووٹ ڈالنے کا نام ہے جس کے ذریعے امیدوار منتخب کرکے حکومتی ایوانوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ اسلام بھی حکمرانوں کے انتخاب کا حق دیتا ہے یوں جمہوریت اور اسلام ایک ہی چیز ہیں۔حالانکہ جو نمائندے بذریعہ جمہوریت اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ان کی قانون سازی کی بنیاد انسانی عقل ہے جبکہ اسلام میں قانون سازی صرف اللہ تعالی کا حق ہے۔ویسے بھی دو چیزوں کی چند خوبیوں کا ایک جیسا دکھائی دینا انہیں مکمل طور پر ایک جیسا نہیں بناسکتا۔کچھ لوگ شوریٰ سے متعلق محض دو آیات کو بنیاد بناکر اسلامی نظام حکومت کو جمہوریت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر اسلام کا نظام صرف باہمی مشورے تک ہی محدود ہے تو پھر قریش مکہ بھی دارلندوہ میں شوریٰ ( آپس کے مشورے) سے نظام چلارہے تھے پھر ایک نئے نظام کی کیا ضرورت تھی۔اسلام میں مشورہ ہے لیکن مباح معاملات میں جبکہ قوانین کی اکثریت جن کا تعلق معاشرے کی معاشی،حکومتی،تعلیمی اور عدالتی تنظیم سے ہے یا فرد کی ذاتی زندگی کی اصلاح سے ہے وہاں اکثریت اوراقلیت کو معمولی سی بھی اہمیت دیئے بغیر قرآن و سنت سے اخذ کرکے قوانین من و عن نافذ کردئے جاتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام سے بہت پہلے یونانیوں نے جمہوریت دریافت کرلی تھی لیکن قرآن کی کسی آیت یا حدیث میں جمہوریت کا ذکر تو درکنار لفظ بھی نہیں ملتا۔صحابہ کرام،آئمہ،مجتہدین حتٰی کہ 1400سال میں کسی مسلمان فقیہہ یا مفکر کو بھی اسلام میں جمہوریت نظر نہیں آئی۔عالم اسلام پر اپنی مشنری اور ثقافتی یلغار میں مغرب نے مسلمانوں میں اسلام کے بارے میں ایک جانب شکوک و شبہات پیدا کئے تو دوسری جانب اسلام میں خامیاں نکالنے کے بجائے یہ انداز اختیار کیاکہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے متصادم یا مختلف نہیں بلکہ دراصل اسلام سے ہی لی گئی ہے۔ اس طریق پر چلتے ہوئے جمہوریت کی فکر اور نظام پر اسلام کا رنگ چڑھایا گیا اور کہا گیا کہ جمہوریت اسلام کے خلاف نہیں ہے کیونکہ یہ بعینہ شوریٰ ہے،امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے اورحکام کا محاسبہ ہے۔ ان دلائل نے کام دکھایا اور جمہوریت مسلمانوں میں سرایت کرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ دینی جماعتیں جو اسلام کے قیام کیلئے کام کررہی تھیں وہ بھی جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے اسلام کے نفاذ کی کوششوں میں لگ گئیں۔
جمہوریت دراصل سرمایہ دارانہ نظام نافذ کرنے کا ایک آلہ ہے جو بھی قیادت اس نظام میں داخل ہوکر اسلام نافذ کرنا چاہے گی وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ہماری دینی سیاسی جماعتیں اس کی مثال ہیں۔وہ دینی جماعتیں جو اس ملک کی بڑی نظریاتی قوت تھیں جمہوری نظام میں داخل ہونے کے بعد آج دوچار سیٹوں کی سیاست کررہی ہیں جن کے حصول کیلئے وہ کبھی نوازشریف کے پاس اتحاد کیلئے جاتی ہیں اور کبھی عمران خان کے پاس۔حالانکہ یہ وہ جماعتیں ہیں جو قیام پاکستان کے بعد ملک کے فکری اور نظری افق پر چھاگئی تھیں۔پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کا مسودہ پیش کرنے سے پہلے لیاقت علی خان نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی پیشگی تائید حاصل کرنا ضروری سمجھا تھا حالانکہ وہ اس وقت جیل میں تھے۔یہ دینی جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے ایوب خان کی آمریت کا منہ پھیر کر رکھ دیا تھا۔لیکن اثرونفوذ کی اس بے پناہ قوت کے ساتھ جب یہ دینی جماعتیں 1970ء کے الیکشن میں داخل ہوئیں تو اپنی حیرت افزا وسعت کے باوجود سمٹ کر رہ گئیں۔رہبر ملک وقوم بننا تو درکنار باوقار عددی حیثیت بھی حاصل نہ کرسکیں۔جمعیت علمائے اسلام سات سیٹیں،جمعیت علمائے پاکستان سات سیٹیں اور جماعت اسلامی صرف چار۔اس کم تر حیثیت کے باوجود ان جماعتوں کی عظیم قیادت نے اگرچہ بھٹو جیسے شاطر سیاست دان سے اپنا لوہا منوایا لیکن بعد میں ہونے والے ہر الیکشن میں اپنا انفرادی اثرونفوذ کھوتی چلی گئیں۔ان جماعتوں کی حیثیت محض اتحادیوں کی رہ گئی کبھی ڈکٹیٹروں کی اتحادی تو کبھی سیکولر جماعتوں کی۔ان دینی سیاسی جماعتوں نے صوبوں میں حکومتیں بھی بنائیں اور وفاقی حکومتوں کا حصہ بھی رہیں لیکن اسلام کی نشاة ثانیہ کا عظیم مقصد کہیں راہ میں گم کر بیٹھیں۔جب تک یہ جماعتیں اس سسٹم کا حصہ نہیں بنی تھیں معاشرے کی حرکت کے لئے عظیم ترین لیور کا کام دے رہی تھیں لیکن جب جمہوریت کے حربے سے انہیں مار گرایا گیا یہ جماعتیں محدود اور تحلیل ہوتی چلی گئیں۔جمہوریت کے باب میں جہاں تک اس تھیوری کا تعلق ہے کہ انسانیت نے ہمیشہ کیلئے جمہوریت کو حکومتی ماڈل کے طور پر تسلیم کرلیا ہے لہٰذا حکومتی ماڈل کیلئے فکری جستجو اختتام پذیر ہو نے کے نتیجے میں تاریخ بھی اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔عالم اسلام میں خصوصاً عوام نے جمہوریت اورآمریت دونوں کو مسترد کردیا ہے کیونکہ یہ استعمار کے ہتھکنڈے ہیں۔حالیہ برسوں میں پاکستان میں نئے نظام کیلئے فکری اور سیاسی بحث میں کافی پیش رفت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے عوام صرف اور صرف اسلام کا شرعی نظام چاہتے ہیں۔ہماری دینی سیاسی جماعتیں عوام کے شعور میں اس تبدیلی کا تاحال احساس نہیں کرسکیں اور جمہوریت کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے فتوے جاری کرنے میں مصروف ہیں۔جبکہ عوام آمریت،جمہوریت اور اسلامی جمہوریت جیسے باطل نظریات کو ٹھکراکر خالصتاً مدینے کی ریاست جیسے اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تازہ ترین