• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا شعیب احمد فردوس

پھر کفر نے اندھیر مچایا ، باطل نے سر اٹھایا ، توہین رسالت کی ناپاک جسارت کی،طغیان و عصیان کیا ،خود اپنا نقصان کیا۔

محبوب رب کائنات ، مقصود کائنات ،سرورکونین، ساقئ کوثر، شافع محشر، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکی شان و مراتب کے کیا کہنے !آپ ﷺ کی ذات بابرکت کو خود اللہ عز وجل نے عزت دی تو بھلا کس کی مجال کہ آقا ﷺ کے رتبے کو کم کر سکے ؟البتہ حاسدوں کے منہ میں خاک ، ان کی دنیا خراب اور آخرت برباد ، کیوں کہ چاند پر تھوکنا خود اپنے منہ پر تھوکنے کے مترادف ہے ۔

راست بازوں کے سردار، پاک بازوں کے سرتاج، فخر موجودات، سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، تو وہ ہستی ہیں جنہیں انسانیت کی معراج سے نوازا گیا، آپ ﷺکا وجود’’ وجہ وجود کائنات‘‘ بنا ، آپ ﷺ کو ’’ خلق عظیم‘‘ کی دولت سے مالا مال کیا گیا،’’رحمت للعالمین‘‘ کی خلعت پہنائی گئی، ’’أعطینٰک الکوثر‘‘ کی نوید سنائی گئی، ’’مقام محمود‘‘ آپ ﷺ کے رتبوں کی ’’اوج‘‘ ہے۔

دنیا کے کونے کونے اور خطۂ ارض کے گوشے گوشے میں، بحر وبر ،صحرا وبیاباں ،جہاں جہاں اذان کی صدا گونجتی ہے ،اس کے روح افزا جھونکوں میں اللہ تعالیٰ کے نام مبارک کے ساتھ آں حضرت ﷺ کا نام نامی بھی فضا میں بلند ہوتا ہے اور چہارسو پھیلتا ہے ،جو ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی حقانیت کا بین ثبوت ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں بسنے والے دو ارب سے زائد مسلمان فرانس کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی صورت میں شان رسالت میں گستاخی کی ناپاک جسارت پر اگر غم و غصّے کی کیفیات سے دو چار ہیں تو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی محبت میں بھی ہمہ وقت سرشار ہیں ، مگر ساتھ ہی ساتھ تمام مسلمانان عالم گنبد خضراء کے مکین ، صادق و امین ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے شرمندہ بھی ہیں۔آخر گستاخوں کے حوصلے اس قدر بلند کیوں ہوئے ؟ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟

وجہ صاف ظاہر ہے۔ہم نے قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کو فراموش کر دیا۔ کاش ! مسلمانوں نے’’ درس قرآن ‘‘ نہ بھلایا ہوتا تو آج انہیں یہ ’’ زمانہ‘‘ بھی ’’زمانے‘‘ نے نہ دکھایا ہوتا ۔ کاش امت مسلمہ کے نوجوانوں نے نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض اپنے اسلاف کی عزتوں کے کفن نہ بیچے ہوتے۔ کاش ! مسلمان وضع میں ’’نصاریٰ‘‘ اور تمدن میں ’’ہنود‘‘ کی طرح نہ ہوتے۔ کاش ! مسلمانوں نے اپنے حقوق ’’خیرات کی طرح‘‘مانگ کر کفار کو اپنا حاکم نہ بنایا ہوتا۔کاش ! مسلمانوں نے مال کی جگہ مآل(آخرت) پر نظر رکھی ہوتی۔

کاش! مسلمانوں نے ’’طاؤس و رباب ‘‘ کی جگہ ’’شمشیر وسناں‘‘ کو ترجیح دی ہوتی۔کاش! ملت اسلامیہ نے ’’ معصیت‘‘ کے سمندر میں غوطہ لگا کر آپ اپنی ’’مصیبت‘‘کو دعوت نہ دی ہوتی۔مسلمانوں نے فانی دنیا سے دل لگایا، مگر یہ نہ سوچا کہ متاع دنیا حاصل ہو بھی جائے تو یہ محض’’ چار دن کی چاندنی‘‘ ہے ۔

کاش! مسلمانوں نے دنیوی’’ اغراض‘‘ کی خاطر دین محمدی سے ’’اعراض‘‘ نہ کیا ہوتا۔کاش! مسلمانوں نے اپنوں سے ’’ جفا‘‘ اور غیروں سے’’وفا‘‘ کو اپنا شعار نہ بنایا ہوتا۔ کاش! مسلمانوں نے اپنے دلوں کو’’صنم آشنا‘‘بنانے کی بجائے’’خدا آشنا‘‘ بنایا ہوتا ۔کاش ! مسلمانوں نے ’’ شقاوت‘‘ کے راستوں پر چلنے کی بجائے ’’ سعادت‘‘ کی راہ کو اپنایا ہوتا۔کاش! مسلمانوں نے غیر مسلموں کی ’’اطاعت‘‘ کر کے قرآن وسنت سے’’بغاوت‘‘ نہ کی ہوتی۔ کاش! اہل اسلام نے باغیان اسلام کی فرماں برداری کو’’زحمت‘‘ اور اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے کو ’’ذریعہ حصول رحمت ‘‘ سمجھا ہوتا ۔ آج مسلمان’’ مدعی اسلام‘‘ تو ہیں ،مگر درحقیقت ’’ساتھی ہیں بے گانوں کے‘‘ ۔ گویا…

تقویٰ کی وہ بو ہی ان میں نہیں

وہ رنگ نہیں ایمانوں کے…

کاش! اہل ایمان نے’’ میراث اسلاف‘‘ کو نہ گنوایا ہوتا تو ثریا سے زمیں پر آسماں نے بھی انہیں نہ دے مارا ہوتا۔ کاش! مسلمانوں نے ’’جوروجفا‘‘ کے مقابلے میں’’صدق و صفا‘‘ کی راہوں کو اپنایا ہوتا۔کاش! مسلمانوں نے’’ قوت عشق ‘‘سے ہر پست کو بالا کرنے کی فکر کی ہوتی ،اور دہر میں’’اسم محمد (ﷺ)‘‘سے اجالا کرنے ہی کو پنا نصب العین بنایا ہوتا۔

وہ سرکار دو عالم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا مبارک طریقہ ہی تو ہے ،جو دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے راستے کھول دیتا ہے، مگر مسلمان ’’جدت پسندی‘‘ کے ایسے رسیا ہوئے کہ نئے رہ رو، نئے رہبر ،نئی راہیں، اور نئی منزل تلاش کرنے لگے ۔ مگر ہوا یوں کہ …

’’پرانی راہ کیا چھوڑی کہ اب منزل نہیں ملتی‘‘

کاش! مسلمانوں نے ’’لذت آشنائی‘‘ کو پانے کی فکر کی ہوتی تو نہ صرف صحرا و دریا ان کی ٹھوکر سے ’’دونیم‘‘ ہو جاتے، بلکہ ’’سمٹ کر پہاڑ‘‘ بھی ان کی ہیبت سے ’’رائی‘‘ ہو چکے ہوتے۔

وہ زور حیدر ،فقر بوذر اور صدق سلمانی ہی تو تھا کہ جس نے قیصر و کسریٰ کے استبداد کو مٹا ڈالا تھا ، لیکن …ہائے افسوس!کہ خود مسلمانوں ہی نے ’’گلیم بوذر،خلق اویس‘‘ کو بیچ کر پستی کے راستے کو اپنایا۔ فطرت افراد سے تو اغماض کر لیتی ہے ، لیکن قوموں کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔ آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ… عزت کو تلاش کرتے ہیں اغیار کی خوشنودی میں… حالانکہ اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ :

وہ جس کے دل میں نہ ہو آبروئے ختم الرسلؐ

تو رکھنا فرض ہےاس بے حیا سے کینہ مجھے

سو مسلمانو! وقت آگیا ہے اٹھو بیدار ہو جاؤ۔ اس پیغام کے ساتھ…

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد ؐسے اُجالا کر دے

تازہ ترین