• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال 2013ء کے عام انتخابات کے حوالے سے وطن عزیز پاکستان میں اس وقت پوری شدت سے بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان بیک وقت یا مشترکہ طور پر ”نظریہ پاکستان “ طالبانیت، دہشت گردی، قدامت پسندی، ( فنڈا مینٹل ازم ) خدا واسطے کی (پھڈا مینٹل ازم )اناڑیوں اور کھلاڑیوں کی سیاست بازی کی زد میں ہو جس میں ایم کیو ایم سٹائل لبرل ازم، جماعت اسلامی سٹائل امن پسندی، مسلم لیگ نون سٹائل گڈ گورننس ، پاکستان پیپلز پارٹی سٹائل ڈیموکریسی، جے یو آئی سٹائل ایمانداری اور تحریک انصاف سٹائل بڑھک بازی بھی چل رہی ہے اس کے علاوہ آزاد امیدواروں کے مٹکا ازم اور سیاسی منافقوں کی لوٹا کریسی کی لاٹری بھی نکلنے والی ہے ۔ اس کے علاوہ ظلم وستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اچھالنے کے خواب بھی دیکھے اور دکھائے جا رہے ہیں اور بے چاروں کے چارہ گردی کی بے چارگی کے معروضی حقائق بھی سامنے رکھے جا رہے ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان کرنے والی دھمکی نئے پاکستان کی ہے ۔ اس دھمکی سے پریشان ہونے والے وہ سیاسی عناصر ہیں جو اگر سال 1946ء کے عام انتخابات سے پاکستان کو پیدا ہوتے دیکھ چکے ہیں تو سال 1970ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان سے ایک نیا پاکستان مغربی پاکستان کی شکل میں پیدا ہوتے بھی دیکھ چکے ہیں اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت اختیار کرتے بھی دیکھ چکے ہیں چنانچہ جب بھی ”نیا پاکستان“ وجود میں لانے کی دھمکی دی جاتی ہے وہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کی خیر منانے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ پیش گوئی بھی موجود ہوتی ہے کہ ”ہندوستان تقسیم نہیں ہوا، ہندوستان کے مسلمان تقسیم ہوئے ہیں اور تقسیم ہوتے رہیں گے “ یہ یاد کرکے ان کے منہ سے قدرتی طور پر ”خدانخواستہ “ نکل جاتا ہے ۔ پاکستان کے سیاسی عناصر کو یہ بھی یاد آتا ہے کہ ہندوستان پاکستان سے رخصت ہوتے وقت ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے مغربی طاقتوں نے واپسی کا ٹکٹ خرید لیا تھا ۔ افغانستان کو چھوڑ کر جاتے وقت بھی مغربی افواج کو اپنی سلامتی کا کوئی انتظام ضرور کرنا پڑے گا ورنہ اس علاقے میں واپس آنا مشکل ہو جائے گا تو پھر اس علاقے میں موجود ان کے مفادات کا کیا بنے گا ؟
تازہ ترین