• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہفتۂ شانِ رحمۃ للعالمینؐ‘‘ سے مجھے اپنے مرحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی یاد آگئے جن کے اشعار نعروں کی صورت میں جب گونجتے ہیں تو میرا دل الوہی کیف سے بھر جاتا ہے۔ خاص طور پر اِن دو شعروں کے مصرعے تو زبان زدِ عام ہو گئے۔ یعنی بارگاہِ رسالتؐ میں اُنہیں قبولیت حاصل ہو گئی۔

یہ جاہ اور جلال کیا، یہ مال اور منال کیا

غلامی رسولؐ میں تو موت بھی قبول ہے

جبیں پہ داغ دین کے، گلے میں طوقِ مصطفیؐ

غلام ہیں غلام ہیں، رسولؐ کے غلام ہیں

بےشک انسانیتِ کبریٰ کے وہ پیکرِ کامل، انابتِ آدمؑ، سفارتِ نوحؑ، سلامتیٔ قلب ِخلیلؑ، ایثارِ اسماعیلؑ، طہارتِ فکرِ لوطؑ، صبرِ ایوبؑ، انکسارِ یونسؑ، استقامتِ صالحؑ، ثباتِ ہودؑ، صفاتِ دراستِ ادریسؑ، اوصافِ تربیتِ شعیبؑ، جلالِ ضربِ کلیمؑ، جمالِ حلمِ ہارونؑ، کمالِ علمِ ذکریاؑ، صدقِ فراستِ یحییٰؑ اور رافت و رحمتِ عیسیٰؑ کے حامل تھے۔ آپؐ کی ولادت کا دن خدا کی تمام صفاتِ کاملہ کی نمود کا دن تھا جنہیں وہ اپنی مخلوق میں منعکس دیکھنا چاہتا تھا۔ ربیع الاول کی عطر بیز بہاروں کی ایک گلپوش سحر نے تبسم کی طبا شیر بکھیر کر جس کی ولادت کا اعلان کیا۔ اس کی تشریف آوری کا مقصدِ وحید بھی اس کے خالق نے یہی بیان کیا کہ آپؐ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اُن کے وہ بوجھ اتاریں جنہوں نے انکی پیٹھ دوہری کر رکھی ہیں۔ آپؐ کی ولادت کی برق پاش درخشانی سے قصرِ ملوکیت کے کنگرے گر گئے۔ فریبِ پاپائیت کے فسوں سازبت لرزہ براندام ہو گئے اور طلسم کار قارونیت کے پیکرانِ سمین بدن اخگر زیرپا اور آتش در پیرہن بن گئے۔ ادھر عالمِ قدس میں ملائکہ یہ کہتے ہوئے سر بسجود ہوگئے کہ اے تخلیقِ آدمؑ پر ہمارے سوالات کے جواب میں ’’انی اعلم مالا تعلمون‘‘ کہہ کر ہمیں خاموش کر دینے والے قدوسِ ذوالجلال! ہم پر آج ہی تیرے سلسلۂ تخلیق و ارتقاء کی پُرعظمت حکمت منکشف ہوئی ہے۔ ملااعلیٰ سے خدا کی تمجید و تقدیس کے غلغلے بلند ہوئے اور ’’و نحن نسبح بحمدک وَ نقدس لک‘‘ کے ترانوں سے فضا نور سے معمور ہو گئی مگر خالقِ کائنات نے کہا، میری تسبیح و تمجید تو اَن گنت صدیوں سے ہو رہی ہے، آئو آج ہم مل کر اِسی کے تذکارِ جلیلہ سے محفلِ کائنات سجائیں جس کی پیدائش سے خلق کی تقدیر جاگ اٹھی ہے۔ اور کائنات درود و سلام کے نغماتِ مقدس سے گونج اٹھی۔ آسمان نے چونک کر زمین کی طرف دیکھا اور اس کے مقدر کی معراج دیکھ کر مجسمۂ رشک و حسرت بن گیا اور زمین جس کی بدنصیب چھاتی پر صدیوں سے ابلیس کا وحشیانہ رقص ہو رہا تھا، سراپا ناز بن کر مسکرا اٹھی۔ یہ وقت ہے شگفتن گلہائے ناز کا۔ آج بھی عشقِ محمدؐ کی بستیوں میں رہنے والے اِسی درود و سلام کےپیغام کو عام کر رہے ہیں۔ فرانس میں توہینِ رسالتؐ کو جب آزادیٔ اظہارِ رائے کہا گیا تو عمران خان نے مسلم ممالک کے سربراہوں کو ناموسِ رسالتؐ کی تحریک چلانے کا مشورہ دیا۔ محبتِ رسولؐ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی پیچھے نہیں رہے۔ اُنہوں نے بھی ہر سال بارہ ربیع الاول کے روز سے ’’ہفتہؐ شانِ رحمت اللعالمینؐ‘‘منانے کا اعلان کیا۔ یہ پُرنور و ضیا بخش ہفتہ، دنیا کیلئے امن و آشتی کا پیامِ دلربا ہوگا۔ اِس ہفتے میں ہونے والی پُرسعادت تقریبات سےجہاں ہمارے لئے نیکیوں کے گلاب کھلیں گے وہیں غیرمسلموں کو بھی اُن کے مقام و مرتبہ سے آگاہی حاصل ہوگی۔ سنتِ نبویؐ کی خوشبو اور روشنی کا یہ ہفتہ، شعور کی زندہ و تابندہ تحریک ہوگی۔ اس سے برداشت، رواداری اور برابری کا درس ملے گا۔ طبقاتی فرق کو ضربِ کاری ہوگی۔ حسنِ سلوک، دوسروں کا احترام، عظمتِ انسانیت کی تاریخ رقم ہوگی۔ سرکاری سطح پر صوبے، ڈویژن، ضلع اور تحصیل کے سطح پر پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ طالب علموں میں تزک و احتشام سے علمی مقابلے ہونگے۔ جس میں حکومت کی طرف سے بڑے بڑے انعام اور اسناد دی جائیں گی۔ ڈویژن کی سطح پر یونیورسٹیزمیں ’’رحمت اللعالمینؐ چیئرز‘‘ قائم کی جائیں گی۔ میرے خیال میں مغرب کے تعصب کا اِس سے بہتر اور کوئی جواب نہیں۔ آقائے کائناتؐ کی تعلیمات بصورتِ علم عام کی جائیں۔ الحمرا اوپن ائیر تھیٹر میں محفلِ نعت اور محفلِ سماع منعقد ہونگی۔ نعتیہ مشاعرے بھی منعقد ہونگے۔ کلامِ اقبال کئی زبانوں میں پیش کیا جائے گا۔ عالمی علما و مشائخ کنونشن بھی ہوگا۔ سیرت النبیؐ پر بننے والی بہترین ڈاکو منٹری کو انگریزی اور فرنچ سب ٹائٹلز کے ساتھ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی طرف سے یہ قابلِ ستائش کاوش ہے۔ اِس کاوش کے افق سے روشنی کی کرنیں ابھریں گی۔ حقیقی زندگی سے انسان آگاہ ہوگا۔ بےشک حیات تو ازل سے اپنی نمود کیلئے بےقرار رہی تھی اور اُس نے کروڑوں قسم کے رنگ و روپ میں جنم لیا تھا مگر بارہ ربیع الاول کو جس انداز میں زندگی ظہور پذیر ہوئی، اُس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یہ زندگی رحمۃ للعالمینؐ کی نمود بن کر جلوہ فروز عالم ہوئی تھی:

خلق و تقدیر و ہدایت ابتدا است

رحمت العالمینیؐ انتہا است

یہ زندگی ہزار پہلو تھی اور اِس کے ہر پہلو میں قوس قزح کے شوخ جلولے بکھرے ہوئے تھے۔ یہ تریسٹھ سالہ مختصر زندگی پیکرانِ آب و گل کی ہر طرح کی زندگیوں کے لئے نمونہ کا مل اور اسوہ حسنہ کی جلوہ طرازیوں سے مملو تھی۔ یہ زندگی ایک جوئے رواں تھی۔ جو مزاحمتوں اور رکاوٹوں سے بےنیاز مست خرامی سے بہتی چلی گئی اور اس نے مرغزاروں اور صحرائوںکو یکساں طور پر سیراب کر دیا۔

درخود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود

بنگر کہ جوئے آب چہ مستانہ می رود

تازہ ترین