• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان والوں کو اِس سے پہلے اتنے جلسے کہاں ملے تھے کہ وہ جلسوں میں رنگ بھرتے، عام پاکستانیوں کی طرح وہ ابھی جلسوں سے اکتائے نہیں، اسی لئے گلگت بلتستان میں سب جماعتوں کے جلسے بڑے بھرپور جا رہے ہیں۔ بھنگڑے، دھمال اور رقص میں نوجوانوں کا پُرجوش جذبہ شامل ہے، وہاں کئی نعرے نئے آ گئے ہیں، کئی سیاست دان بھرپور ماڈلنگ بھی کر رہے ہیں، اُن کی تصاویر اور وڈیو کلپس سوشل میڈیا کی نذر ہو کر تبصروں کے میدان میں حالات کی زینت بن جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے جلسوں میں کلین سویپ اور جیت کے دعوے ہر کوئی کر رہا ہے، ن لیگ کے پاس چھ امیدوار ہیں مگر مریم نواز کلین سویپ کے دعوے کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے تین چار روز پہلے حکمتِ عملی تبدیل کی ہے، انہیں کم ازکم سات حلقوں پر کچھ کمزوریاں نظر آئیں تو انہوں نے میدان میں زلفی بخاری اور مراد سعید کو اتار دیا۔ مراد سعید وہاں شاعرانہ تقریریں کر رہا ہے جبکہ زلفی بخاری جلسوں کے علاوہ کچھ خاص ملاقاتوں پر بھی توجہ دے رہا ہے، شاید اسی لئے وہاں نعرہ لگ رہا ہے کہ

ایک بخاری، سب پہ بھاری

پی ٹی آئی کی خواتین بھی نیلوفر بختیار کی قیادت میں وہاں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کی نگرانی مرکزی چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی کر رہے ہیں، باقی علی امین گنڈا پور کی تقریریں تو آپ سن ہی چکے ہیں، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔ مریم نواز کے جو امیدوار بچے ہیں، اُن پر کیا کہا جائے کہ

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

گلگت بلتستان میں ایک اہم ترین سیاسی قوت ایم ڈبلیو ایم ہے شاید اسی لئے مریم نواز کو اپنے بھائیوں کے ناموں کے حوالے دینا پڑے مگر جواب میں مخالفین سانحہ ماڈل ٹائون لے آئے ہیں کہ پاک ناموں کو پکارنے پر تو آپ لوگوں نے گولیاں برسائی تھیں۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس کی موجودگی سے حکومتی اتحاد کو تقویت ملے گی مگر پی ٹی آئی کے لئے پیپلز پارٹی نے الیکشن مشکل بنا دیا ہے۔ اس مشکل کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان میں مستقل ڈیرے ڈالے ہوئےہیں اور وہ وہاں سے نتائج لے کر ہی آئیں گے۔ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے ہر سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت ہر حلقے میں گئی ہے۔ کئی باتوں کے توڑ کیلئے وہاں شہلا رضا موجود ہیں، شہلا رضا روزانہ کی بنیاد پر عورتوں کے جلسے کر رہی ہیں اور وہاں کورس کی صورت میں نعرے لگتے ہیں، کراچی کی رہنے والی شہلا رضا جی بی کی عام دیہاتی عورتوں سے گھل مل گئی ہے۔ سو اب تک کی صورتحال تو یہ ہے کہ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی سب سے آگے ہے۔ الیکشن سے پہلے وہاں ن لیگ کی حکومت تھی مگر اب ان کے پاس امیدوار ہی نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی نئی جماعت ہے، وعدے کر رہی ہے لیکن خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی جڑیں وہاں بہت مضبوط ہیں، الیکشن سے پہلے گلگت بلتستان کا ایک بڑا سیاسی خانوادہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہا ہے۔ اُس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ کچھ نشستوں پر آزاد امیدوار بھی آگے ہیں، آزاد امیدواروں کی ملکیت پر تینوں پارٹیوں کے دعوے ہیں مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ آپ کی ملکیت تھے تو آزاد کھڑے کیوں ہوئے؟

چند مہینوں سے پاکستان میں جو جلسے ہوئے یا اب جو گلگت بلتستان میں ہو رہے ہیں، اُن تمام جلسوں میں سیاست دانوں نے شائستگی کا دامن چھوڑ دیا، بدقسمتی سے اِس میں بڑے بڑے سیاست دان بھی شامل ہو گئے۔ ایک سوال بڑا اہم ہے کہ کیا یہ لوگ ہماری قیادت کر رہے ہیں جو خود اخلاقی پستیوں کا شکار ہیں، جنہیں بولنے کا ہنر بھی نہیں آتا، جو سوائے بدزبانی کے کچھ کہہ ہی نہیں پاتے، جن کے پاس الزامات تو بہت ہیں مگر عوام کیلئے کوئی پروگرام نہیں؟ کاش اُن میں سے کوئی نوابزادہ نصراللہ خان کے نقشِ قدم پر چل پڑے تاکہ سیاست میں شائستگی رہے کیونکہ ہماری اگلی نسلوں کو اعلیٰ اخلاقیات کی ضرورت ہے، اقتدار کے اِس کھیل میں اعلیٰ اخلاقیات کا درس کیوں فراموش کیا جا رہا ہے؟

کچھ اچھی خبریں بھی آئی ہیں، اچھے کو اچھا ہی کہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا ہے کہ ہمیں یہ موسم راس آ گیا ہے۔ 1990کے بعد یعنی تیس برسوں بعد، ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل طور پر بحال ہو گئی ہے، کورونا کے باعث کئی ملکوں میں انڈسٹری بند ہے۔ اس لئے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بہت آرڈرز ملے ہیں، پچاس ہزار بند پاور لومز بھی چل پڑی ہیں، مزید تیس ہزار لگنے کا امکان ہے، اِس وقت فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دو لاکھ مزدوروں کی کمی کا سامنا ہے، بیروزگاروں کو رجوع کرنا چاہئے۔ بجلی میں ریلیف ملنے پر صنعت کار خوش ہیں۔ یہ یقینی طور پر موجودہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے، اِس اچھے اقدام کے ساتھ حکومت کو کسانوں اور کاشت کاروں پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ ہمارا ملک صنعت سے زیادہ زرعی لحاظ سے اہم ہے، اس سلسلے میں ہم چین سے بہت مدد لے سکتے ہیں، اس مدد سے ہم اپنی زراعت کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس زرخیز زمین ہے مگر حکومتی توجہ نہیں ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ گندم سمیت دیگر فصلوں کی امدادی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کرے اور اس اضافے کے ساتھ ساتھ زراعت کو جدید بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ زراعت ہمیں بچا سکتی ہے، اناج کی کمی کو دور کر سکتی ہے، مہنگائی اور غربت کو کم کر سکتی ہے، صنعتوں کو خام مال بھی تو زراعت ہی نے دینا ہے۔ یونس اعجازؔ یاد آگئے کہ

نت اپنے ہنسی کھیل میں، رونے نہیں دیتے

احباب تو بوڑھا کبھی ہونے نہیں دیتے

پھر اُن کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں ہر شام

وہ لوگ جو دم بھر مجھے سونے نہیں دیتے

تازہ ترین