• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان کے قیام کا اعلان 14؍اگست کی رات بارہ بجے ہوا جو رمضان کی ستائیسویں شب تھی اور اَنوار کی بارش ہو رہی تھی۔ اگلے دن جمعۃ المبارک تھا۔ ہم نے نمازِ جمعہ کے بعد شکرانے کے نوافل باجماعت پڑھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ سرسہ کی یہ مسجد جامع مسجد دہلی کے ڈیزائن پر تعمیر کی گئی تھی جس کے مینار دُور سے نظر آ جاتے تھے۔ ہمارے علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے تھے۔ اِس کا سب سے بڑا سبب حکیم محمد عبداللہ کی بےکراں شخصیت تھی۔ وہ طبیبِ حاذق کے علاوہ، ایک روحانی پیکر بھی رکھتے تھے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی اُن کے مرید تھے۔ کبھی شہر میں کوئی ہندو مسلم تنازع کھڑا ہوتا، تو جناب حکیم عبداللہ تشریف لاتے اور اُن کی مصالحانہ کوششوں سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔ باؤنڈری کمیشن کے اعلان کے بعد سبزی منڈی کے علاقے میں ہمارے لئے مہاجر کیمپ قائم ہوا، کیونکہ ہمیں پاکستان کی طرف ہجرت کرنا تھی۔ ہماری اِس بستی میں دو ڈھائی ہزار کے لگ بھگ لوگ رہتے تھے اور اَب تین ہزار کے قریب شہر کے دوسرے علاقوں سے لوگمنتقل ہو گئے تھے جس کے باعث مختلف مسائل کا پیدا ہو جانا ایک فطری عمل تھا۔

میرے بڑے بھائی اعجاز حسن قریشی کو لوگوں نے کیمپ کا کمانڈر چُن لیا تھا۔ وہ جب سے علی گڑھ یونیورسٹی سے چھٹیاں گزارنے سرسہ آئے تھے، شہر کے کشیدہ حالات میں گہری دلچسپی لینے لگے تھے، کیونکہ ہندو مہاسبھا سے وابستہ ہندو نوجوان فوجی ٹریننگ لے رہے تھے اور اُن کی حرکتوں سے اِس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ وہ کسی بھی شب مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ اِس خطرے کی روک تھام کے لئے اعجاز صاحب نے مسلم نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار کی جس نے دستی بم بنانے کا طریقہ سیکھا اور بڑی رازداری سے کچھ اسلحہ بھی جمع کر لیا۔ اِنہی نوجوانوں کو بھائی صاحب نے کیمپ کی حفاظت پر مامور کیا۔ یہ نوجوان راتوں کو پہرہ دیتے اور ہندو جنگجوؤں کی سرگرمیوں کی بھی سُن گُن رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ فسادیوں نے دو تین بار کیمپ پر حملہ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اپنے ارادوں میں بری طرح ناکام رہے۔ چند فوجی ہمارے کیمپ کی دیکھ بھال کے لئے تعینات کئے گئے تھے جو صورت سے نیپالی لگتے تھے۔ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول لیتے تھے۔ اُن کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنا بہت ضروری تھا۔ اعجاز صاحب نے کیمپ ہیڈ کی حیثیت سے میل جول بڑھایا۔ اُن کے لئے گاہے گاہے لذیذ پکوان تیار کرواتے۔ اُنہیں ہمارے کھانے بہت پسند آئے اور یوں ایک طرح کی بےتکلفی پیدا ہو گئی۔ کیمپ کا دوسرا بڑا مسئلہ غذائی کمی کا تھا۔ سرکاری طور پر جو راشن دیا جاتا، وہ ناکافی تھا۔ فوجیوں سے جو راہ و رسم پیدا ہوئی، اُس نے غذا کی دستیابی میں بڑی مدد کی۔ ہمارے کیمپ کے ساتھ ہی بنّیوں کی دکانیں تھیں جن میں غلہ بڑی مقدار میں موجود تھا۔ بھائی اعجاز اپنی ٹیم کے ساتھ رات کے وقت اِن دکانوں کے تالے کھولتے اور وہاں سے غلہ لے آتے۔ یوں ساڑھے تین مہینے خوارک کی سپلائی کا اطمینان بخش انتظام ہوتا رہا۔ اِس ٹیم کے اندر تالوں کی چابیاں بنانے کا ہنر جاننے والے بھی تھے۔

اِس کے علاوہ صفائی کا عمدہ انتظام رکھنے کے لئے ایک اور ٹیم تشکیل دی گئی۔ اُس نے بڑی جانفشانی سے کیمپ کے اندر صفائی کے نہایت عمدہ اِنتظامات کیے اور یوں کسی خطرناک وبائی بیماری کے پھیلنے کا امکان پیدا نہیں ہوا اَور بچے بھی ہر طرح سے محفوظ رہے۔ یہی ٹیم اِس امر کا اہتمام بھی کرتی کہ مکینوں کے اندر مایوسی پیدا نہ ہونے پائے اور اِن کا پاکستان کے ساتھ محبت کا رشتہ مستحکم رکھا جائے۔ اِس مقصد کے لئے گھروں میں درسِ قرآن کے علاوہ اُن مشاہیر کا بھی ذکر کیا جاتا جنہوں نے آزادی کی خاطر بےمثال قربانیاں دی تھیں۔ جناب حکیم محمد عبداللہ اپنے گاؤں سے ہمارے کیمپ میں منتقل ہو گئے تھے۔ وہ اَنبالہ ڈویژن کے امیرِ جماعتِ اسلامی تھے جو ایک بڑے قافلے کے ساتھ پیدل ہی پاکستان کی طرف روانہ ہو گئے۔ اُن کی اتباع میں چھوٹے چھوٹے قافلے بھی پیدل ہی اپنے عظیم وطن کی طرف چل پڑے تھے۔

یکم نومبر 1947کو یہ اطلاع ملی کہ ایک ٹرین دہلی سے دو نومبر کو سرسہ پہنچے گی، چنانچہ روانہ ہونے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ہمارا علاقہ ریلوے اسٹیشن سے کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ بچوں اور بوڑھوں کے لئے وہاں تک سامان اٹھائے ہوئے پہنچنا بہت دشوار تھا۔ اِس مسئلے پر فوجیوں سے بات چیت ہوئی۔ اُنہوں نے معدودے چند سواریوں کا انتظام کر دیا۔ اعجاز بھائی اور اُن کی ٹیم نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے تمام باسیوں کو بخیریت اسٹیشن پہنچا دیا۔ وہاں پہنچے، تو ایک گمبھیر بحران اُٹھ کھڑا ہوا۔ ٹرین میں گنجائش کم تھی۔ ریلوے حکام نے کہا ہم نصف لوگوں کو اب لے جاتے ہیں اور باقی کل اِسی وقت ٹرین آئے گی، یہ اُس میں سفر کر سکیں گے۔ ہمارے لئے یہ حل قابلِ قبول نہیں تھا، چنانچہ طویل مذاکرات کے بعد طے ہوا کہ سب کے سب اِس ٹرین میں جائیں گے۔ لوگ سکڑ کر بیٹھ گئے۔ ایک بڑی تعداد چھتوں پر چڑھ گئی۔ شام کے دھندلکے پھیلنے لگے تھے کہ ٹرین میں حرکت پیدا ہوئی۔ مَیں نے مسجد کے میناروں کو آخری بار سلام کہا۔ مجھے اپنا شہر چھوڑنے کا ذرہ برابر قلق نہیں تھا، کیونکہ ہم اپنی منزلِ مراد کی طرف رواں دَواں تھے۔ ہم فاضلکا کے قریب پہنچے، تو ہمیں بلوچ رجمنٹ کے فوجی نظر آئے۔ یوں لگا ایک مشفق ماں نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ سرسہ کے ہزاروں مہاجرین خیریت سے پاکستان پہنچ گئے۔ اِن میں بیشتر پاکستان کی سرزمین پر سجدہ ریز ہو گئے۔ ہم ریل گاڑیاں بدلتے ہوئے ہارون آباد پہنچ گئے اور چند ہفتوں بعد ہمارا خاندان لاہور آ گیا جہاں ہمارے برادرِ مکرم جناب گل حسن محکمۂ انہار میں تعینات تھے۔ اُن کے توسط سے اعجاز صاحب کو اِس محکمے میں ملازمت مل گئی جبکہ مَیں نے اُن سے ٹیلی گرافی سیکھ کر محکمۂ انہار میں سگنیلر کی ملازمت حاصل کی۔ یہاں سے ہم دونوں بھائیوں کی جدوجہد کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین