• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزار قائد بے حرمتی واقعہ کے بارے میں عسکری ادارے کی انکوائری رپورٹ آگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی درخواست پر آرمی چیف نے انکوائری کا حکم دیا۔ ان کے حکم پر قائم کورٹ آف انکوائری نے نہایت مختصر وقت میں اس واقعہ کے بارے میں نہایت شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات مکمل کیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس طرح برملا انکوائری کا کہا تھا، اسی طرح رپورٹ کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا گیا۔ یہ انکوائری رپورٹ شفافیت اور بے لاگ احتساب کی نہایت اعلیٰ مثال ہے کیونکہ اس میں رینجرز اور آئی ایس آئی کے کراچی کے اعلیٰ افسران کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تجربہ کاری کے باوجود انہوں نے جذباتی عمل کا اظہار کیا۔ وہ اس سے بہتر انداز میں حالات کو کنٹرول کر سکتے تھے۔ اس لئے ان کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے اور مزید انکوائری جی ایچ کیو میں ہونے کا کہا گیا ہے۔ کیاکسی اور سرکاری ادارے میں شفافیت کے ساتھ انکوائری کی ایسی مثال دی جا سکتی ہے یقیناً نہیں۔ کہیں پیٹی بھائیوں کو بچانے کے الزامات لگتے ہیں تو کہیں ساتھیوں کی پردہ پوشی کی خبریں ملتی ہیں۔ پاک فوج کے بارے میں میرے جیسے عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ وہاں غیر جانبدار اور انصاف پر مبنی احتساب کا عمل چلتا رہتا ہے۔ لیکن وہاں کمپنی کی مشہوری کیلئے ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا ۔ افواج پاکستان ملک کے دفاع اور سالمیت کی امین ہیں۔ وہاں زبان اور قومیت کا کوئی تصور نہیں ہے جوانوں سے لے کر اعلیٰ افسران صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ قوم کو بجا طور پر افواج پاکستان پر فخر ہے۔ آرمی چیف کے حکم پر اس انکوائری رپورٹ نے پاک فوج کی عزت و احترام میں مزید اضافہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مزار قائد کے واقعہ میں جن کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، ان کا تعلق نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ (ن) سے ہے بلکہ وہ میاں نواز شریف کے داماد بھی ہیں۔ گزشتہ دنوںمیاں نواز شریف پاک فوج کے بعض اعلیٰ افسران کے بارے میں کس قدر نامناسب باتیں کرتے رہے ہیں۔ اس انکوائری رپورٹ سے ان تمام الزامات اور لغو باتوں کی نفی ہو گئی ہے۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کا موقف بھی غلط ثابت ہو گیا ہے کہ یہ تمام کارروائی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ ڈرامہ ہے۔ اس رپورٹ کو بلاول بھٹو نے سراہا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آرمی چیف نے ان کی درخواست پر یہ انکوائری کرائی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کراچی واقعہ میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے بارے میں اگر مسلم لیگ (ن) کو کوئی شبہ بھی ہوسکتا تھا تو وہ بھی ختم ہو گیا ہو گا۔ لیکن اس رپورٹ کے بارے میں میاں نواز شریف کا ردعمل نہایت عجیب ہے۔ ان کوتو آرمی چیف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے موقف پر معذرت کا اظہار کرنا چاہیے تھالیکن اس رپورٹ کو مسترد کر کے انہوں نے ثابت کیا کہ کچھ بھی ہو، وہ پاک فوج کے اعلیٰ افسران کی مخالفت اور ان پر بے بنیاد الزامات لگانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اس انکوائری رپورٹ سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ پاک فوج شفاف تحقیقات اور بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے۔ اور اسی تناظر میں پاک فوج نہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی حامی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد بھی بعض سیاسی رہنما دبے الفاظ میں عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں تو ایسے لوگوں کے بارے میں قوم میں بھی شک و شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ایسے غیر مطمئن سیاسی رہنما شاید پھر کچھ چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اس واقعہ پر معذرت نہیں کی، کوئی ان سے پوچھےکہ مزارِ قائد کے احاطے میں سیاسی نعرے بازی کی ضرورت اور تک کیا تھی؟ کوئی بھی سنجیدہ رہنما اور شخص ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ قبر کے سامنے کھڑے ہو کر موحوم کی مغفرت کیلئے دعا کی جاتی ہے نہ کہ دنیاوی مفاد کیلئے کسی تقسیم کی نعرہ بازی کی جاتی ہے یا وہاں ہڑبونگ کی صورتحال پیدا کی جاتی ہے۔ دوسری طرف مدعی مقدمہ، جو پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا بھانجا اور اشتہاری تھا کی طرف سے مقدمہ دائرکرانے کی کیا ضرورت تھی جو اس واقعہ پر معذرت نامے کے مطابق وہاں موجود ہی نہیں تھا۔ پھر اسی مدعی مقدمہ کی حمایت میں مقدمہ درج کرانے کیلئے تھانے کے سامنے دھرنا دینے اور پولیس کے اعلیٰ افسران کو سر عام دھمکیاں دینے کا کیا مقصد تھا؟ انصاف کا تقاضہ تو یہ کہ کیپٹن (ر) صفدر کے علاوہ ایک جھوٹا مقدمہ درج کرانے پر مدعی مقدمہ کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور تھانے کے سامنے دھرنا دینے اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے والوں کے خلاف بھی پاک فوج کی طرح سخت قانونی اقدامات کئے جائیں۔پاک فوج نے تو اس انکوائری رپورٹ کے ذریعے ایک بہترین مثال سامنے رکھ دی۔ کیا اب ’’جمہوری‘‘ حکومتیں بھی (وفاقی و صوبائی) اس مثال کی پیروی کر سکیں گی؟ اس کی امید شاید نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سارے واقعہ کو اگر غیر جانبدارانہ اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو پاک آرمی کے وہ افسران جتنے قصور وار ہیں، ان سے کم یہ سارا ہنگامہ برپا کرنے والے بھی نہیں ہیں۔ ان کے خلاف مگر کون کارروائی کر سکے گا۔ صوبائی حکومت کی انکوائری رپورٹ کب آئے گی اور اس کا حاصل کیا ہو گا؟ اس کا انتظار ہے۔ چلیں وہ بھی دیکھ لیں گے۔

تازہ ترین