• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاز کی کھڑی سے میں نیچے خوبصورت اور سرسبز وادیوں کا نظارہ کر رہا تھا تو میں اس علاقے کی خوبصورتی دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی خوبصورت سرزمین عطاء کر رکھی ہے، لیکن جس علاقے پر ہم پرواز کر رہے تھے ،اس کے حوالے سے ہم نے سن رکھا تھا کہ یہ ایسے جنگجوؤں کا علاقہ ہے جنہوں نے اپنے ہی ملک کے امن کو تہہ و بالا کر رکھا ہے جوں جوں جہاز لینڈ کرنے کیلئے اپنی پرواز کو کم کر رہا تھا تو وانا کے اس علاقے کی خوبصورتی مجھے محصور کر رہی تھی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس خوبصورت وادی میں کیسے سخت دل لوگ رہ سکتے ہیں ؟جو اپنے ہی ملک کے خلاف برسرپیکار ہیں اور امن تباہ کر رہے ہیں، لیکن یہ جان کر اطمینان بھی ہو رہا تھا کہ اب اس علاقے میں پاک فوج نے معاملات کافی حد تک کنٹرول کرلئے ہیں۔وانا پہنچنے کیلئے میں صبح پہلے راولپنڈی سے براہ راستہ سڑک تربیلا پہنچا تھا اور پھر وہاں سے اس چھوٹے چینی طیارے، جو پاک فوج کی ملکیت اور زیراستعمال تھا، کے ذریعے کوہاٹ سے ہوتے ہوئے وانا پہنچنے والا تھا، مجھے وانا میں وہاں کے مقامی بچوں کیلئے قائم کیڈٹ کالج کا دورہ کرنا تھا اور وہاں زیر تعلیم بچوں سے ملاقات کرنا تھی۔ میں صبح بروقت تربیلا پہنچا لیکن بتائے ہوئے وقت کی بجائے جہاز کی روانگی میں تاخیر ہو گئی تھی اور اب اس پرواز کے ذریعے تھوڑی ہی دیر میں ہم وانا اترنے والے تھے۔اڑان کے دوران جہاز کے کپتان کرنل نسیم اور ان کے ساتھی کرنل فیصل کی مہارت کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔جب ہم وانا کی آبادی والے علاقے کے اوپر سے گزر رہے تھے تو کھڑکی کے ذریعے وہاں کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ وہاں نئے ماڈل کی گاڑیوں ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس سے اندازہ ہوا کہ یہاں مالی طور پر مستحکم لوگ بھی آباد ہیں۔کیڈٹ کالج پہنچ کر وہاں کے نظم و ضبط اور کالج کی خوبصورتی نے میری رات کو دیر سے سونے اور صبح جلدی اٹھ کر تربیلا پہنچنے کی تھکاوٹ کو دور کردیا تھا اور میں ایک دم تروتازہ ہو گیا۔میجر شیراز جو اس پورے دورے کے کوآرڈینیٹر تھے وہ قدم قدم پر مجھے گائیڈ کرتے رہیکیڈٹ کالج پہنچے تو کالج کے سربراہ بریگیڈئر ناصر سعید خٹک سے ملاقات ہوئی۔ میجر جنرل نذیر سے بھی ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ مجھے کیڈٹ سے ملاقات کرکے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ ان کے دمکتے چہرے اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ وہ اپنا مستقبل بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں، میرا دل چاہنے لگا کہ میں ان سے بہت ساری باتیں کروں میں عموماً جب بھی مختلف فورمز پر نوجوانوں سے ملاقات کرتا ہوں تو انہیں بتاتا ہوں کہ کوئی بھی کارنامہ انجام دینے کیلئے تعلیم بنیادی شرط ہے، قائد اعظم محمد علی جناح اگر اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرتے، وہ اچھے وکیل نہ ہوتے تو انگریزکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بات نہ کرسکتے، کانگریس کے لیڈروں کا مقابلہ نہ کرسکتے، اور یوں ہم آزاد وطن حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتے تھے، اگر علامہ اقبال نے بھی اعلیٰ اور فلسفہ کی تعلیم حاصل نہ کی ہوتی تو وہ سوئی ہوئی مسلمان قوم میں نئی روح اور ان میں نیا جذبہ بیدار نہ کرسکتے، سرسید احمد خان علی گڑھ جیسی اعلیٰ درسگاہ نہ بناسکتے لیکن ان شخصیات میں ایک خصوصیت مشترک تھی بلکہ یہ خصوصیت تمام بڑی شخصیات میں ہوتی ہے کہ کوئی بڑا کام، کسی کی مخالفت میں نہیں کرتے، وہ ایسے کام اپنے اور دوسروں کی بہتری کیلئے کرتے ہیں، سرسید احمد خان نے جو درسگاہ بنائی وہ مسلمانوں کیلئے ضرور تھی لیکن دوسروں کو بھی اس میں تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت نہ تھی اور نہ ہی یہ درسگاہ کسی خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کیلئے تھی، اس لئے ہمیں بھی کچھ کرنے کیلئے پہلے تعلیم حاصل کرنا ہے اور پھر کوئی بھی کام کسی کی مخالفت میں نہیں بلکہ اپنے، اپنے ملک اور انسانیت کی بہتری کیلئے کرنے ہیں، میری اس مختصر سی گفتگو کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک کیڈٹ نے خواتین کی تعلیم کی اہمیت کی بات کرکے خود ہی سوال کا جواب بھی دیدیا، جو میرے لئے بڑی خوشی کی بات تھی۔ یہ دن میرے لئے یادگار دن تھا، جہاں میں اپنے ملک کے مستقبل سے ملاقات کر رہا تھا، وہ مستقبل جس کا تعلق وانا جیسے علاقوں سے تھا اور پاک فوج نے ان کو بھی اعلیٰ تعلیم کا موقع فراہم کرکے علاقے کے لوگوں کے دل جیت لئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اس درسگاہ میں تعلیم حاصل کرنے والے تمام کیڈٹ ملک کیلئے عظیم سرمایہ ثابت ہونگے اور یوں قوم جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دو قومی نظریئے کو بھی پروان چڑھاتی رہے گی۔
تازہ ترین