• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان سیاحت کے حوالے سے پاکستان کا خوبصورت خطہ ہے۔ تاریخی و سیاسی حوالوں سے کشمیر کا حصہ باشمولہ ہونے کی بنیاد پر اِسے ایک طرح سے متنازع خطہ قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اِس کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے میں اب تک بہتر پیشرفت نہیں ہو سکی ۔ یکم نومبر کو وزیراعظم نے یہاں انتخابی دورے میں یہ اعلان کیا کہ اگر ان کی پارٹی جیتی تو گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنا دیا جائے گا مگر پاکستانی کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے ایسی کسی بھی کارروائی کو افسوسناک اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ اُن کا اعتراض تین حوالوں سے تھا: اول، روایتی پاکستانی موقف کی خلاف ورزی۔ دوم، ایسی صورت میں علاقے کے لوگوں کیلئے ٹیکس دینا لازم ہو جائے گا۔ سوم، اس نوع کے اعلانات انتخابی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہیں کیونکہ انتخابی ضابطۂ اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔

دوسری طرف انڈین فارن آفس کا یہ استدلال ہے کہ جموں و کشمیر، لداخ کی یونین ٹیریٹریز بشمول گلگت بلتستان یہ سب اُسی جموں و کشمیر کا حصہ ہیں جس نے مہاراجہ ہری سنگھ کی قیادت میں 1947ء میں انڈیا سے الحاق کیا تھا، اِس لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کے حالیہ اقدامات، جو خطے کی پوزیشن کو تبدیل کریں، ناقابل قبول ہیں۔ درویش کی نظر میں بھارت کا یہ اعتراض اس لئے اپنی اہمیت کھو دیتا ہے کہ اُس نے پچھلے برس خود اپنے زیر قبضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اُسے جس طرح اپنی یونین کا حصہ قرار دے دیا ہے، اس کے بعد اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں طے کیا گیا اصول کہ ہر دو ممالک کی فورسز متنازع خطوں سے چلی جائیں، ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ انڈیا تو پہلے ہی شملہ معاہدے کو UNریزولوشن کے خاتمے کا اعلان قرار دیتا رہا ہے اور مودی سرکار نے دفعہ 270کو تحلیل کرتے ہوئے شملہ معاہدے کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔

سی پیک کے حوالے سے چینی قیادت کی طرف سے یہ مطالبہ آتا رہا ہے کہ پاکستان اپنے اس خطے کی متنازع حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے باضابطہ اپنا حصہ قرار دے تاکہ چینی انویسٹمنٹ پر کوئی عالمی اعتراض نہ ہو سکے جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت اسے اپنے روایتی موقف سے روگردانی خیال کرتی رہی ہے، اس کا استدلال یہ رہا ہے کہ اگر ہم خود اس متنازع خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہیں تو پھر انڈیا کے ایسے ہی اقدام پر اعتراض کس طرح کر سکیں گے؟ بالآخر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی زعماء کے درمیان طے یہی پایا کہ یہ ایشو گلگت بلتستان میں 15؍ نومبر کو ہونے والے انتخابات کے بعد حل کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان میں اس مرتبہ انتخابی مہم ایسی فقید المثال تھی جس میں نہ صرف تمام اہم سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت نے بلند بانگ دعوے کئے بلکہ گلگت بلتستان کے عوام نے بھی عوامی جلسوں میں وہ جوش و جذبہ اور ولولہ دکھایا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

جی بی میں طویل انتخابی مہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چلائی، وہ حکومت کے خلاف جتنا بھی گرجے برسے مگر اُن کا رویہ خاصا ذمہ دارانہ تھا۔ انہوں نے وزیراعظم پر اعتراض کیا کہ انہیں پچھلے دو سالوں تک تو یہاں کے عوام کا خیال نہیں آیا، اب ناقابلِ عمل وعدے کرنے آئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے یہیں بی بی سی کو ایک سنسنی خیز انٹرویو دیا جس میں انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کسی کا نام لے کر تنقید نہیں کی جانی چاہئے تھی۔جواب میں پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ تقاریر میں نام لینے یا نہ لینے کی کوئی بندش نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے اپنی انتخابی مہم کے اختتام پر بلاول بھٹو سے براہ راست ملاقات کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔ انہوں نے حکومتی وزراء کے بالمقابل اپنا دفاع کرنے پر بھی پی پی کے چیئرمین کا شکریہ ادا کیا اور واپسی پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک ایسی سیاسی بات کہہ دی جس کے نیچے دیگر تمام بحثیں دب کر رہ گئیں جیسا کہ اسٹیبلشمنٹ نے قریبی ساتھیوں کے ذریعے رابطے کئے ہیں، ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ یہ بات چیت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو اور دھاندلی سے منتخب ہونے والی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ اس پر سوالات اٹھنے ہی تھے کہ بی بی جی وہ ووٹ کو عزت دو والا نعرہ کیا ہوا؟ آئینی رول اور آئینی ضابطوں کی پابندی کے مطالبات کہاں گئے؟ بہرحال احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی جیسے لیگی ذمہ داراب اِس بیان کی وضاحت فرما رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پر بہت کچھ لکھا بولا جا رہا ہے، عمومی رویہ اگرچہ یہی رہا ہے کہ جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے یہاں بھی اُسی کی حکومت بنتی ہے مگر بلاول بھٹو کا دعویٰ ہے کہ اس مرتبہ پانسہ پلٹ چکا ہے، جی بی میں اب جس کی حکومت بنے گی، بعد ازاں وفاق میں بھی وہی پارٹی حکومت بنائے گی، اُن کا یہ دعویٰ بظاہر ناقابل فہم ہے۔ اس ملک کی سیاست کا اصل ایشو ہی یہ ہے کہ یہ سینہ گزٹ اختتام پذیر ہو جس کا جو کام ہے جو ذمہ داری ہے وہ خود کو وہیں تک محدود رکھے۔ آئین پاکستان، جس کے تحفظ اور پابندی کی قسم کھائی جاتی ہے، اس میں جس کا جو کردار بنتا ہے، وہ اس سے آگے بڑھنے کی سوچ ختم کرے اور یہ اصول منوایا جا سکتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کوئی اور نہیں، صرف اور صرف عوام ہیں۔ یہی آئین کہتا ہے اور یہی میثاقِ جمہوریت کی اصل روح بھی ہے۔

تازہ ترین