• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجئے امریکی انتخابات نے ’’ پہلے امریکہ ‘‘ کے ناٹک باز ٹرمپ کو جاتا کیا اور عالمی مالیاتی اجارہ داری کے مفاد میں بائیڈن کے انتخاب سے امریکہ کی عالمی اداروں، اتحادیوں اور عالمگیریت کی جانب واپسی ہونے کو ہے۔ بے رونق عالمی اداروں، بے وقعت ہوتے اتحادوں اور عالمی منڈی کی رسد کی ٹوٹتی زنجیروں کو پھر سے متحرک کرنے کے لیے منتخب صدر بائیڈن میدان میں اترنے کو ہیں۔

چائنا شاپ میں جو بیل گھس آیا تھا، وہ اب امریکی نظام انتخاب کو تو شاید نہ لے ڈوبے۔ البتہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سر پر لٹکتی ریپبلکن تلوار کی دھار تیز کرنے میں ضرور کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ اس کی نظریں سینیٹ میں ریپبلکن اکثریت پہ ہیں جس کا دارومدار جارجیہ کی دو نشستوں پر ہے جن کا پھر سے انتخاب جنوری میں ہے۔ 

ڈیموکریٹک پارٹی کے سارے داخلی ایجنڈے کا انحصار سینیٹ میں اس کی ممکنہ اکثریت پہ ہے، جو اگر ریپبلکنز کے پاس چلی گئی تو بائیڈن کی صدارت اندرونی معاملات میں غیر موثر ہوجائے گی اور ڈیموکریٹک پارٹی کا بایاں بازو چلاتا رہ جائے گا۔ لیکن ہمیں غرض بائیڈن کے عالمی ایجنڈے سے ہے۔ صدر بائیڈن ٹرمپ کی خلوت پسندی کے برعکس کثرت پسندی یا ملٹی لیٹرل ازم کی جانب رجوع کریں گے۔ 

گلوبلائزیشن بحال تو ہوگی لیکن اس شرط پہ کہ دنیا پر امریکہ کی عالمی مالیاتی اجارہ داری قائم رہے اور دیگر مالیاتی شراکت داروں سے مل کر دنیا پر عالمی غیر مساوی تجارت اور اجارہ دارانہ تبادلے کا انتظام برقرار رہے۔ اب اس طرح کہ چین جیسی ابھرتی عالمی معاشی قوت یا تو سرنگوں ہوجائے یا پھر اپنی راہ لے۔ سابق صدر اوبامہ نے ایشیا بحرالکاہل کے حوالے سے چین مخالف جس جیواسٹرٹیجک منصوبے کا آغاز کیا تھا، اسے ٹرمپ نے عالمی مالیاتی اداروں کے آگے ہتھیار پھینک دینے یا بالکل باہر ہونے کی بنیاد پر چین کے ساتھ تجارتی جنگ کی صورت آگے بڑھایا۔ 

اور یہ دونوں چین مخالف بنیادیں بائیڈن کے صدر بننے سے پہلے ہی رکھ دی گئی ہیں۔ چین جو عالمی سپلائی کا 25 فیصد فراہم کرتا تھا، وہ بُری طرح سے توڑی جارہی ہے اور متبادل سپلائی چینز کینیڈا، میکسیکو، برازیل ، انڈیا، کوریا ، جاپان و دیگر کے ساتھ مل کر تشکیل دی جارہی ہیں۔ 

میڈبائی چائنہ کے مال کی عالمی منڈی سکڑ رہی ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری سے میڈان چائنہ کا مال بنانے والے یا تو اڑان بھر لیں گے یا پھر عالمی مالیاتی سرمائے کا چین میں دست و بازو بن جائیں گے، امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارے کا واویلا اور یو آن کی کم شرح تبادلہ کے حوالے سے واویلا زیادہ تر فسانہ ہے۔

1978سے 2011ء تک چین کے محنت کش کی 40 گھنٹے کی ضروری سماجی کاوش، امریکی مزدور کے کام کے ایک گھنٹے کے برابر رہی، جواب کم ہوکر امریکی محنت کش کے کام کے ایک گھنٹے کے مقابلے میں چھ گھنٹے پہ آگئی ہے۔ گوکہ چین نے اپنی برآمدات سے امریکی منڈی میں خوب مال بنایا، لیکن جو سرپلس ہاتھ آیا، وہ واپس امریکی ٹریژری بلز میں جمع ہوگیا۔ 

یہ سرمائے کے عالمی اجتماع کا ایسا غیرمساوی چکر تھا اور ہے کہ امریکہ دہائیوں کے تجارتی اور مالی خساروں کے باوجود دنیا کا خوشحال ترین ملک ہے اور ڈالر و پٹروڈالر دنیا کا چالو سکہ ہے۔ گرتی برآمدات کے باعث چین میں صنعتکاری بند ہورہی ہے، جس کے ازالے کے لیے چینی صدر ژی جن پنگ نے ’’انٹرنل سرکولیشن ‘‘کی اسٹرٹیجی اپنائی ہے جس سے دیہی معیشت کی سرسبز اور پائیدار اجتماعی کایا پلٹ بنیادی ہدف ٹھہری ہے۔ 

اور دوسری جانب جدید ترین ٹیکنالوجیز اور سائنسی پیداوار پہ زور بڑھ گیا ہے جو اب چین کی برآمدات کا 50 فیصد ہے۔ اب چین نہ صرف عالمی مالیاتی نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے حق کے لیے لڑے گا بلکہ اس سے زیادہ ایک متوازی عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل کی جانب بڑھے گا۔ 

چین کے ستر شہروں کی جائیدادوں کی قدر امریکہ، یورپ اور جاپان سے کہیں زیادہ ہے اور اگلے 12برس میں چین کی مجموعی قومی پیداوار نمو کے موجودہ ریٹ پر دوگنی ہوجائے گی جبکہ امریکہ کی معیشت کو دوگنا ہونے کے لیے 36برس درکارہوں گے۔ چین کے لیے بڑا مسئلہ ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہے اور وہ زرکرنسی کی جگہ الیکٹرانک زرمبادلہ یعنی کرپٹو کرنسی کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔ 

غرض یہ کہ اگلی دو تین دہائیاں اب امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ اور سفارتی سرد جنگ میں کٹیں گی۔ بائیڈن اس جنگ کو اتحادیوں کو ساتھ ملا کر لڑیں گے، وہ کس حد تک عالمی آداب کی پابندی کریں گے، اس کا انحصار دو بڑی معاشی طاقتوں کے مابین ممکنہ سمجھوتے پر ہوگا، جو ہوگا بھی اور ٹوٹتا بھی رہے گا۔

نئی امریکی انتظامیہ روس اور چین کے خلاف نیٹو کو متحرک کرے گی اور ایشیا بحرالکاہل میں آسٹریلیا، انڈیا، جاپان اور ساؤتھ کوریا کو ملا کر محاذ آرا ہوگی، اور اس کے مقابلے میں چین، روس و دیگر درمیانی معاشی قوتیں اکٹھی ہوں گی۔ ایران بھی معاشی پابندیوں سے نکل کر صدر ژی کے روڈ اینڈ بیلٹ کی صفوں میں شامل ہوجائے گا۔ 

رہا انڈیا تو وہ چین کی اشیاء کی سپلائی کی زنجیر ٹوٹنے سے فائدہ اٹھا کر عالمی تجارت اور مالیاتی اجارہ داری نظام میں اپنا حصہ بٹورے گا۔ اس کے ساتھ ہی چین سے مقابلے کے زعم میں وہ انڈوپیسفک ملٹری جتھہ بندی کا حصہ بن کر اسلحے کی نئی دوڑ میں شامل ہوکر ہانپ جائے گا۔ کہتے ہیں ہاتھیوں کی جنگ میں گھاس ہی کچلی جاتی ہے۔ 

پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہاتھیوں کی لڑائی میں کود پڑے اور بھارت کی چین سے مقابلے کی پالیسی کو بھارت کے ساتھ مقابلے کی صورت اپنا کر خودکشی کی راہ لے۔ بہتر ہے کہ چین کے ساتھ مل کر پاکستان کی معاشی پیداواری بنیاد کو مضبوط کیا جائے، صنعت کاری ہو، زراعت کے چینی ماڈل پہ کایاپلٹ ہو، جس کے لیے زرعی اصلاحات کرنی پڑیں گی اور کسانوں کی کواپریٹو معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا، انسانی و فزیکل ذرائع کی ترقی کے لیے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کے لیے ہزاروں جدید سائنسی و ٹیکنالوجی اسکولز اور کالجز بنانا ہوں گے۔ 

اور بلوچستان سمیت تمام وفاقی اکائیوں کو ایک جمہوری و مساوی وفاق میں شریک کار بنانا ہوگا۔ متبادل ترقی عوامی ماڈل کی جانب کون توجہ دے۔ یہاں تو بیہودہ تو تو میں میں کی تکرار کے شور میں کوئی دانائی کے نسخے کیوں تلاش کرے گا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ 

ادارے اپنی مستی میں ہیں، سیاستدان اپنے جھمیلوں میں پھنسے ہیں اور لوکائی کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ 

مکالمہ بس یہ ہے کہ بربادی کا ذمہ دار ہی کوئی دوسرا ہے۔ کاش کوئی قوم کو ایک نئے ایجنڈے پہ اکٹھا کرے، وگرنہ جو نئی سرد جنگ تیز ہونے جارہی ہے، اس میں اپنا ہم راستہ بنانے کی بجائے کسی اور کنویں میں نہ جاگریں۔

آنکھیں کھولیں! کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے؟

تازہ ترین