• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے الیکشن میں چند روز باقی ہیں۔ منظرنامہ یہ ہے کہ ابھی شیر دھاڑ رہا ہے، بلّے باز چوکے چھکے لگانے کی کوشش کر رہا ہے، ٹوٹی کمان کا تیر ایک صوبے کو شکار کرنے کی کوشش کر رہا ، سائیکل کی چین اتر چکی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ تو الیکشن کے نتائج ہی بتائیں گے کہ شیر بوڑھا ہوچکا یا اس کے پنجوں اور دھاڑ میں اب بھی دم خم باقی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ بلّے باز اوائل عمری کا شاہد آفریدی ہے یا پچھلے کچھ سالوں کا جب وہ چند بالوں کو چوکے چھکے لگانے کی کوشش میں آوٴٹ ہو جاتا ہے۔ تیر کے کند ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس کا پنجاب میں تقریباً صفایا عیاں ہے۔ دنیا کے معتبر اور سرکردہ اخبار پاکستان کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جیت کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ وزیراعظم کی کرسی پر کون براجمان ہوتا ہے، یہ الیکشن بڑے دلچسپ اور نازک وقت پر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف بقول ڈیلی ٹیلیگراف لندن کے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر تک گر چکے ہیں اور وہ عملی طور پر ایک دیوالیہ ملک ہے۔ خارجہ کرنسی کے ذخائر کا حجم دیکھنے کے لئے اس کا دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ سودمند ہوگا تاکہ قاری کو مسئلے کی شدت کا اندازہ ہو سکے۔ اس وقت ڈالروں میں چین کے ذخائر ایک کھرب سے زیادہ، جاپان کے نو سو بلین سے زیادہ، ہندوستان کے دو سو نوّے بلین اور بنگلہ دیش کے تیرہ چودہ بلین ڈالر ہیں۔ غرضیکہ پاکستان بنگلہ دیش سے بھی کہیں پیچھے ہے۔ اسی طرح پاکستان میں توانائی کا بحران صنعتوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے جس سے غربت اور بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ غرضیکہ پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
اس پس منظر میں سرکردہ سیاسی پارٹیوں کے معاشی پروگراموں پر تفصیلاً بحث ہونا چاہئے تھی لیکن میڈیا میں اس کا ذکر ناپید ہے۔ شاید خود سیاسی پارٹیوں یا ان کے پیرکاروں میں شعور کی سطح اتنی بلند نہیں ہوئی کہ وہ مختلف معاشی ماڈلوں کے فرق کو سمجھ سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت کی تبدیلی کے بعد لوٹ سیل لگتی ہے جس سے ملک کے مختلف امیر اور بااثر حلقے فیضیاب ہوتے ہیں یعنی آخرکار معاشی حقیقتوں کی تبدیلی ہی اہم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کی بالغ جمہوریتوں میں الیکشن معاشی پروگراموں پر لڑے جاتے ہیں۔
اگرچہ بڑی سیاسی پارٹیاں تو اپنائے جانے والے معاشی ماڈلوں کے بارے میں خاموش ہیں لیکن اس الیکشن میں ایک پارٹی ایسی بھی ہے جو اس بارے میں واضح نقطہ نظر کی حامل ہے۔ یہ صاحبان زر کی پارٹی ہے جو پاکستان کے امیر ترین سرمایہ دار شخصیت کی سربراہی میں الیکشن لڑے بغیر تھیچرازم کے انقلاب کے خواب دیکھ رہی ہے۔ اس کا سلیس زبان میں مطلب ہے کہ وہ لوٹ سیل کے خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ تھیچرازم کے انقلاب کے پردے میں ریاست کے تحت چلنے والے اداروں کو ویسے ہی مفت میں لینا چاہتے ہیں جیسے بینکوں کی نجکاری میں ہوا تھا۔
یہ شخصیت برملا کہہ چکی ہے کہ پاکستان کو تھیچرازم کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ وہ پچھلے دنوں امریکہ کے ایک تھنک ٹینک میں ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور حاضر اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ وہ بار بار قومی ایئرلائن کی نجکاری پر زور دیتے رہے ہیں اور امارات ایئر لائن چلانے والے گروپ کی اس میں سرمایہ کاری کی خواہش کا ذکر کرتے رہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ تھیچرازم پر عمل کرنے کے بارے میں ملک کی ایک اہم سیاسی پارٹی کے سربراہ کو بھی قائل کر چکے ہیں۔ اس لئے یہ اہم ہے کہ ہم تھیچرازم کے بنیادی تصورات سے تھوڑی بہت آشنائی حاصل کریں۔
تھیچرازم کا معاشی ماڈل برطانیہ کی آنجہانی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے موسوم ہے ۔ مارگریٹ تھیچر1980ء سے 1990ء تک برطانیہ کی وزیراعظم رہیں۔ ان کو سخت گیر پروگرام اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی بنا پر ”آہنی خاتون“ کا لقب بھی دیا جاتا ہے۔ ان کا بنیادی قدامت پرست پروگرام یہ تھا کہ حکومت کو معاشی اداروں کو نجی ملکیت میں دے دینا چاہئے اور برطانیہ کے سوشل ویلفیئر (سماجی بہبود) نظام کو ممکن حد تک ختم کر دنیا چاہئے۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سوشل ویلفیئر نظام لاگو کیا گیا تھا جس کے تحت شہریوں کی صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر اور امریکہ میں رونالڈ ریگن نے اس سوشل ویلفیئر نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی، مزدور یونینوں کو تباہ و برباد کیا، ریاست کے تحت چلنے والے اداروں کی نجکاری کی اور سرمایہ دار طبقے کے ٹیکس کم کرنے کے علاوہ ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں۔ تھیچرازم کو اپنانے کے نتیجے میں برطانیہ میں بیروزگاری دوگنا ہو گئی اور غربت کی لکیر سے نیچے آبادی کی تعداد بڑھنے لگی۔ اگرچہ صنعتی پیداوار میں اضافہ بھی ہوا لیکن اس سے عام شہری کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہ ہوا۔ یہ تھیچرازم (ریگن ازم) کا ہی نتیجہ ہے کہ پچھلے تیس سالوں میں امیر امیر تر ہوئے ہیں اور غریب غریب تر۔ تاریخی اعتبار سے امیر اور غریب کے درمیان اتنا فاصلہ بیسویں صدی میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں تھیچرازم کے انقلاب سے کیا مراد ہے اور مذکورہ امیر ترین سرمایہ دار شخصیت کس دلیل کے تحت اس تبدیلی کے خواہاں ہے؟ غالباً اس دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کی تحویل میں بڑے بڑے ادارے بہت زیادہ گھاٹے (پندرہ سو بلین)میں چل رہے ہیں اور وہ ملکی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں جس کی وجہ سے حکومت عوام کو سہولتیں دینے سے قاصر ہے۔ ان اداروں میں پی آئی اے، ریلوے، واپڈا اور اسٹیل مل جیسے ادارے سر فہرست ہیں۔ اس سرمایہ دار شخصیت کی دلیل ہے کہ ان اداروں کی فوراً نجکاری کرکے ریاست کو اپنا بوجھ کم کرنا چاہئے اور ان اداروں پر ضائع ہونے والے وسائل کا بہتر استعمال ہونا چاہئے۔ کسی حد تک یہ منطق درست بھی نظر آتی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کی ریلوے حکومتی انتظام میں کس طرح منافع بخش ہے اور کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا۔
مجھ جیسے بہت سے لوگ ہیں جن کو ان اداروں کی نجکاری پر بنیادی اعتراض نہیں ہے لیکن قومی اداروں کی لوٹ سیل ناقابل برداشت ہے۔ ان اداروں کے اربوں ڈالر کے اثاثے ہیں جن میں ریئل اسٹیٹ ہی سیکڑوں ارب ڈالر کی ہو گی۔ اگر ان اداروں کی نجکاری کرنا ضروری ہے تو اس کی دو بنیادی شرائط ہونا چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ نجکاری سے قبل عالمی سطح کی کمپنی کو ان اداروں کی اصل مالیت اور قدر و قیمت کا کام سونپا جائے ۔ جس ادارے کی جتنی کل مالیت ہو وہ اس کی کم از کم قیمت قرار پائے۔ دوسرے ان اداروں میں کام کرنے والے کارکنوں کو بھی اس کے حصص دیئے جائیں تاکہ وہ بھی نجکاری کے فوائد سے فیضیاب ہو سکیں۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں آزاد عدلیہ جیسا ادارہ موجود ہے جو قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف نوٹس لیتا رہتا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ چپکے سے ملی بھگت کرکے چند ٹکوں کے عوض اربوں ڈالر کے قومی اداروں پر قبضہ کر لیا جائے۔ اگر کسی اہم پارٹی کا سربراہ یا کوئی اور نجکاری کا قائل ہو بھی چکا ہے تو ان کو علم ہونا چاہئے کہ بنیادی شرائط کو پورا کئے بغیر نجکاری لوٹ سیل ہوگی۔ مذکورہ سرمایہ دار شخصیت یا کوئی اور پی آئی اے کے کل اثاثوں (عالمی کمپنی کے مقرر کردہ) کی قیمت ادا کریں اور بخوشی اس کے مالک بن کر اسے دنیا میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلائیں۔
تازہ ترین