• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دعا دی تھی جو قبول نہ ہو سکی
کندھا دے نہ سکا
رات بھر جاگتا رہا تھا، صبح سویا، ٹی وی، فون سب بند، دوپہر کو جگایا گیا، ایک آدھ سینڈوچ زہر مار کر کے اخباروں پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر سو گیا۔ جگراتا بھی ایک رات کا نہیں تھا، کئی راتوں کی نیند اکٹھی ہو چکی تھی، شام کو اٹھ کر واک کیلئے نکلا تو بھی جیسے نیند میں چل رہا تھا کہ اچانک عاصم نے کہا… ”آپ کو شاید علم نہیں“ پوچھا ”کس بات کا“؟ ”آپ کے دوست عباس اطہر صاحب انتقال کر گئے“۔ اس خبر کیلئے ذہنی طور پر تیار ہونے کے باوجود جھٹکا سا لگا لیکن میں چلتا رہا، سوچتا رہا، چلتا رہا، پھر گھڑی دیکھی۔ ”بیلی پور“ سے ”تاج پورہ“ تک کا فاصلہ… تدفین کے بعد جانے کا فائدہ۔
پچھلے دنوں میں، حفیظ اللہ نیازی اور صلاح الدین درانی شاہ جی کو ملنے ہسپتال گئے لیکن ملاقات نہ ہو سکی کہ سید زادہ بستر مرگ پر موجود ہونے کے باوجود وہاں موجود نہ تھا، نہ ہونٹوں پر اس کی مخصوص مسکان، نہ آنکھوں میں پہچان، نہ چہرے پر کوئی ایکسپریشن۔ ہم تینوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ شاہ جی کی امریکہ سے آئی ہوئی صاحب زادی باپ کی پائینتی کی طرف دیوار سے ٹیک لگائے مسلسل اپنے باپ کے بجھتے ہوئے چہرے کو دیکھ رہی تھی اور میں بدترین بے بسی کے عالم میں یہ اذیت ناک منظر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہم اٹھے، میں نے سید عباس اطہر کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر آہستگی سے تھپتھپایا اور سر جھکا کر کمرے سے باہر نکل آیا… ہم تینوں چپ تھے، سکوت مرگ طاری تھا اور گاڑی میں قبرستان کا سا سناٹا۔یہ تھی لیجنڈ قلم کار سید عباس اطہر سے میری آخری ملاقات، اک ایسی ملاقات جس کے بعد جب بھی جانے کا سوچا، ہمت نہیں پڑی، اگلی ملاقات کا سوچتے ہی ڈیپریشن طاری ہو جاتا تھا۔دل کے قبرستان میں اک اور قبر کا اضافہ ہو گیا، یادوں کی البم میں اک اور تصویر۔ شاہ جی صحافی نہیں تخلیق کار تھے۔ سادگی، برجستگی اور لیجنسیلٹی ان کے ہر کام میں پوری شدت سے نمایاں رہی۔ شاعری سے نیوز ایڈیٹری اور کالم نگاری تک ہی نہیں، شاہ جی اپنی گفتگو میں بھی انتہائی اوریجنل تھے۔بھٹو کے ساتھ ان کی محبت بھی بہت ہی اوریجنل اور مختلف قسم کی تھی۔ جب بھی بھٹو اور پیپلز پارٹی پر ہماری بحث ہوتی، میں ہمیشہ انہیں طعنہ دیتا کہ بھٹو گڑھی خدا بخش نہیں آپ کے دل میں دفن ہے۔ سو آپ اس مجاوری سے باز نہیں رہ سکتے۔ ایک بار اسی موضوع پر کسی اخبار میں میری اور شاہ جی کی قلمی جنگ شروع ہو گئی جو کئی کالموں پر محیط تھی۔ معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ اخبار کے چیف ایڈیٹر کو بیچ بچاؤ کرانا پڑا لیکن حالت یہ تھی کہ شام کو ہم دونوں پھر اکٹھے ہوتے۔16`17 سال پہلے شاہ جی نے اپنا اخبار شروع کیا، مجھے جوائن کرنے کی دعوت دی، منو بھائی بھی موجود تھے۔ میں نے حامی بھر لی، جب منو بھائی اور شاہ جی چلے گئے تو میں نے برادرم محمد علی درانی سے کہا… ”ان سے اخبار نہیں چلنے کا“… درانی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ”کیوں“؟ میں نے کہا، دونوں ہی تخلیق کار ہیں جبکہ اخبار کی کامیابی ادارتی امور کے علاوہ بھی بہت کچھ مانگتی ہے“۔ درانی صاحب کا اگلا سوال تھا کہ ”پھر میں نے انہیں جوائن کرنے کی حامی کیوں بھری“؟ عرض کیا: ”صرف اس لئے کہ میں یہ کہہ سکوں کہ مجھے عباس اطہر اور منو بھائی کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔لیکن میرا فیصلہ غلط تھا کیونکہ اس سال ڈیڑھ سال میں شاہ جی اور میں بہت قریب آ گئے اور آج یہی قربت رلا رہی ہے۔ شاہ جی کے ساتھ گزرے شب و روز زندگی بھر مجھے ہانٹ کرتے رہیں گے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میں نے شاہ جی اور منو بھائی کیلئے ”مٹھے بابے“ کی اصطلاح استعمال کی۔ ”ایک ”مٹھا بابا“ رخصت ہوا، دوسرے کو اللہ پاک سدا اپنی امان میں رکھے کہ ہم بہت تہی دامن ہو چکے۔
تازہ ترین