• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تبدیلی ، نیا پاکستان، آزمودہ لوگوں سے چھٹکارا وغیرہ تحریک انصاف کے وہ سلوگن ہیں جن کی بنیاد پر وہ انتخاب لڑ رہی ہے۔ یہ تبدیلی کس طرح آئے گی؟ نیا خوبصورت پاکستان کیسے تخلیق ہوگا؟ جھوٹے سیاستدانوں سے قوم کو کیسے چھٹکارا ملے گا؟ اس کی چند جھلکیاں پاکستانی عوام کو ابھی سے نظرآنا شروع ہوگئی ہیں۔ ”تبدیلی“ کی ایک جھلک علامہ عزیز انصاری (مرحوم) کے صاحبزادے فاروق عالم انصاری کی ایک تحریر میں بھی دکھائی دی ہے۔ انصاری صاحب کا تعلق تحریک ِ انصاف سے ہے ان کی متذکرہ تحریر میں سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”گوجرانوالہ ایشیا کا گندہ ترین شہر سہی لیکن تحریک ِ انصاف کی ٹکٹوں کی کہانی میرے شہر کی گندگی سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوگنی، چوگنی اور کتنے گنا ہوگی؟ بھئی انت شمار سے باہر ہے۔ ہمارے چیئرمین تحریک ِ انصاف کہہ رہے ہیں کہ ہم سے ٹکٹو ں کے معاملے میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ یہ بے خبری اور بھولپن کی انتہا ہے کہ اسے ”محض“ سمجھا جائے۔ کیا یہ غلطی ہے؟ خود ہی جواب تلاش کریں۔ میں صرف چند واقعات لکھ کر بری الذمہ ہوتاہوں۔ وما علینا الا البلاغ المبین!
(1)گوجرانوالہ میں چیئرمین کے 2مئی کے منسوخ شدہ جلسہ کے لئے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی سے چندہ مانگا گیا تو وہ کہنے لگا کہ 42 لاکھ دے کر ٹکٹ لیا ہے اب مجھ سے اور کیا مانگتے ہو۔ (2)وزیرآباد سے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی اسی جلسہ کے لئے چندہ مانگنے پر پھٹ پڑا ”جتنے روپے آپ مانگ رہے ہیں اس کے آگے کئی صفرے لگانے پر وہ رقم بنتی ہے جو دے کر میں نے ٹکٹ خریدا ہے، اب مجھ میں ادائیگی کی اور کوئی سکت نہیں رہی“ یاد رہے کہ اس سے چیئرمین کے جلسہ کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا (3) گوجرانوالہ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر اظہر چیمہ کو ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے یہ ٹکٹ 50لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ اظہر چیمہ بڑے بھولپن سے پوچھ بیٹھا کہ ”آپ تو پی ٹی آئی کے ممبر بھی نہیں تھے“ اس نے جواب دیا ”پی ٹی آئی کی ممبرشپ انتخابی ٹکٹ کے ساتھ خود بخود ہی مل جاتی ہے۔“ اب یہ خبر جو میں ابھی بتانے والا ہوں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوگی۔ خبریوں ہے کہ اس موقع پر اظہر چیمہ کف افسوس ملتے ہوئے بولا ”مجھے علم نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں ورنہ میں اس ٹکٹ کا ایک کروڑ روپے بھی ادا کرنے کو تیار تھا“ (4) میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لے کر پہنچنے کاحکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل پڑا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا ”اس تھیلے میں کیا ہے؟“ بلال سانسی نے جواب دیا”کرنسی نوٹ ہیں“ سپاہی بے ساختہ بولا ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جارہے ہیں؟ وہاں جوبھی جارہا ہے نوٹوں سے لدا پھندا جارہا ہے نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہاہے؟“ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے پہنچنے سے پہلے فروخت کیا جاچکا تھا (5) ایک امیرزادہ بڑا کایاں نکلا اسے رقم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اس نے بیک وقت ملتان کے دونوں سیاسی آڑھتیوں کو رقم کی ادائیگی کردی زیادہ سے زیاد ہ کیا ہوا؟ ٹکٹ تو دوگنی قیمت کا ہو گیا لیکن اس کاملنا تو یقینی ہوگیا (6) میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ٹکٹ کی مد میں ہمارے عزت مآب ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن خان صاحب سے بھی ایک معقول رقم بٹوری گئی ہے اس بیچارے کو آخری دم تک خواجہ محمد صالح کے بھوت سے ڈرایا جاتا رہا تھا (7) گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا سنٹرل پنجاب پی ٹی آئی کا ایک نوجوان عہدیدار ٹکٹوں کے بیوپار میں مالامال ہوگیا ہے۔ ٹکٹوں کی دلالی کوئلوں کی دلالی نہیں کہ اس میں منہ کالا کیا ہو جائے بڑا صاف ستھرا کام ہے۔ اس نفیس کام میں رنگت کچھ اور نکھر آتی ہے۔ اسے تین ضلعوں کے ٹکٹوں کے سودے کروانے کی سعادت نصیب ہوئی (8) پی ٹی آئی کاایک امیدوار مجھے یہ کہتے ہوئے بات ختم کرنے کی تلقین کرنے لگا کہ ضلع گوجرانوالہ میں کون ہے جسے تحریک ِ انصاف کا ٹکٹ مفت ہاتھ آیا ہو؟ میں اس بات کاحلف دینے کو تیار ہوں کہ میرے اس کالم میں کوئی ایک بات بھی کسی شخص سے غلط طور پر منسوب نہیں کی گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے امیدوار جو اپنے وافر مال منال کے باعث پی ٹی آئی کے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اگر منتخب ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تو بھلا کیا تبدیلی آجائے گی۔
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
فاروق عالم انصاری کا بیان حلفی ختم ہوا اب آگے چلتے ہیں۔ ”نیا پاکستان“ عمران خان کی کوششوں سے وجود میں آئے گا جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، ان سے پہلے سارے سیاستدان عوام سے جھوٹ بولتے رہے ہیں چنانچہ آزمائے ہوؤں کو آزمانا عقلمندی نہیں۔ تاہم گوجرانوالہ ہی سے ایک نوجوان سید عدیل بخاری نے میرے نام ایک خط میں خاں صاحب سے کچھ سوالات پوچھے ہیں، وہ اگر ان کے جواب دے سکیں تو ان کے پیروکار زیادہ یکسوئی سے ان کے ساتھ چل سکیں گے۔ خط درج ذیل ہے:
”میں پاکستان کا آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے عمران خان صاحب سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ قاسمی صاحب برائے مہربانی مجھے اس کے جوابات عمران خان صاحب سے یا ان کی لیڈرشپ سے لے دیں تاکہ میں ان کے تبدیلی کے اس خواب کو جو کہ وہ بھرپور طریقے سے قوم کو دکھا رہے ہیں ان کا حقیقی روپ دیکھ سکوں۔
(1) عمران خان صاحب نے اپنی شادی سے پہلے فرمایا تھا کہ وہ ایک متوسط طبقے کی پاکستانی لڑکی سے شادی کریں گے؟
(2) عمران خان صاحب نے کہا کہ وہ لندن میں بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین کے خلاف 2 ٹرک بھر کر ثبوت لے کر جائیں گے اور مقدمہ بھی لڑیں گے۔
(3)عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی شوکت خانم ہسپتال جو کہ عوام کے پیسوں اور زکوٰة سے بنا ہے اس کو اپنی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال نہیں کریں گے آج آپ ان کے انتخابی اشتہار جو کہ مختلف چینلز پر دکھائے جارہے ہیں ان میں شوکت خانم ہسپتال نمایاں طورپر دیکھا جاسکتا ہے!
(4)کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد خان صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کبھی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔
(5) عمران خان نے کہا کہ وہ نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے جبکہ میرے اپنے شہر گوجرانوالہ میں جن نوجوانوں کوٹکٹ دی گئی ہے وہ 50 سا ل سے اوپر کے نوجوان ہے۔ عمران خان نے یہ بھی فرمایا تھاکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہوں جبکہ گوجرانوالہ جیسے شہر میں مجھے کوئی بھی غریب ٹکٹ ہولڈر پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑتا نظر نہیں آ رہا اور پچھلے سولہ برس سے خان صاحب کے ساتھ جدوجہد کرکے ان کے پرانے ساتھی آج سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹکٹ سے محروم ہیں۔
میں جناب عمران خان صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں۔ آپ سہانے خواب دکھا کر اورتبدیلی کا نعرہ دے کر عوام کے جذبات سے کیوں کھیل رہے ہیں؟ بعض دفعہ انسان کسی کے کہنے سے یا جذبات میں آ کر بہت بڑے بول، بول دیتاہے لیکن اس پر عمل پیرا نہ ہونے سے شرمندگی ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔ میں نے کبھی آپ کو مہذب زبان استعمال کرتے نہیں سنا۔ آپ کی یہ زبان ان نوجوانوں کے دل و دماغ پر کیا اثر ڈالتی ہوگی جو بیچارے بے خیالی میں اور آپ کے تبدیلی کے نعرے میں آ کر آپ کو کرکٹر سے لیڈر مان بیٹھے ہیں۔
خان صاحب کسی کو تنقید کے لئے جب آپ اپنی ایک انگلی اٹھاتے ہیں تو چار انگلیاں آپ کی طرف بھی اُٹھ رہی ہوتی ہیں۔ آخر میں، میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ہسپتال اور خیراتی ادارے بنا کر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں ملک کے وزیراعظم ہونے کے معیار پر پورا اترتی ہیں یا ورلڈکپ جتوا کر ملک کا وزیراعظم بنا جاسکتا ہے تو انڈیا کا وزیراعظم دھونی اورسری لنکا کا پی ایم رانا ٹنگا کو ہونا چاہئے۔ اسی طرح خیراتی ادارے کو دیکھ کر چلیں تو پھر ملک کی وزیراعظم نہ تو بینظیر بھٹو تھیں اور نہ نوازشریف اور نہ ہی گیلانی پھر وزیراعظم جناب عبدالستار ایدھی صاحب کو ہونا چاہئے تھا۔ والسلام
عزیزی عدیل بخاری نے خان صاحب سے جو سوالات پوچھے ہیں۔ اان کے جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں البتہ اس نوجوان کا یہ سوال کہ آپ کی غیرمہذب زبان سے نوجوان نسل کیا سیکھے گی؟ تو اس کا جواب میرے پاس ہے۔ تحریک ِ انصاف کے نوجوان اور سفید داڑھیوں کے ساتھ جھوٹ بولنے والے کالم نگار عرف ”بھاڑے کے ٹٹو“ سب کے سب ان لکھاریوں اورٹی وی اینکرز کو فیس بک پر اور ان کے ٹیلیفون نمبرز پر ننگی گالیاں دیتے ہیں اور قتل کی دھمکیاں بھی! اابھی گزشتہ روزیہ ”خوشخبری“ مجھے بھی سنائی گئی کہ ”آپ انشاء اللہ بہت جلد اپنے خدا کے پاس پہنچنے والے ہیں“ نہایت قابل احترام خاتون صحافی قطرینہ حسین پر گزشتہ دنوں تو باقاعدہ حملہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ تحریک ِ انصاف ایک تبدیلی یہ لائی ہے کہ جس سے نیا پاکستان جنم لے گا کہ انہوں نے فیس بک پر نامور لوگوں کے جعلی اکاؤنٹ کھولے ہیں جن سے تحریک ِ انصاف کے حق میں مکمل طور پر بے بنیاد باتیں منسوب کی جارہی ہیں۔ان میں سے ایک اکاؤنٹ نامور عالم دین مولانا طارق جمیل کا بھی ہے۔ برادرم سلیم صافی کے مطابق جناب رحیم اللہ یوسف زئی سے بھی کے پی کے سے تحریک کی غیرمعمولی کامیابی کادعویٰ بالکل غلط طور پر ”کوٹ“ کیا گیا ہے۔ بلکہ فیس بک اور ٹویٹر پر خود سلیم صافی کا جعلی اکاؤنٹ بھی ان تبدیلی لانے والوں نے بنایا ہوا ہے۔ انتہائی سلجھے ہوئے اور نہایت متوازن ذہن کے صحافی اور دانشور سہیل وڑائچ کے حوالے سے یہ بات منسوب کی گئی کہ تحریک انصاف کے مخالفوں کوگالیاں دراصل مسلم لیگ (ن) کے کارکن دے رہے ہیں تاکہ تحریک کے خلاف نفرت پھیلائی جاسکے حالانکہ سہیل وڑائچ کے بقول ”انہوں نے یہ بات نہ کہیں لکھی اور نہ کہی…!“
آخر میں مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے عرض کیا کرنا ہے منیر نیازی کا ایک واقعہ سنانا ہے۔ ان کا ایک نوجوان مداح ان سے ایک دن کہنے لگا ”خان صاحب میرا جی چاہتا ہے کہ دریا کا کنارہ ہو ایک خوبصورت رقاصہ ہو جس کا ہاتھ رباب کے تاروں پر ہو، شام کا وقت ہو اور ہمارے ہاتھوں میں جام ہوں!“ منیر نیازی نے کہا ”بچے! یہ سب کچھ ہو مگر تم وہاں نہ ہو!“ سو پاکستان میں تبدیلی آئے گی اور انشا اللہ ایک نیا خوبصورت پاکستان بھی وجود میں آئے گا لیکن اس میں ”تم“ کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔ یہ تبدیلی وہی لوگ لائیں گے جو ماضی میں اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود اپنی کارکردگی کی روشن مثالیں پیش کرچکے ہیں”تم“ جو تبدیلی لا رہے ہو، اس کا ”ٹریلر“ قوم نے ابھی سے دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم کو اس ”نئے پاکستان“ کے ”بانیوں“ کے شر سے محفوظ رکھے!
تازہ ترین