• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان دو سال تک اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اپنے بہنوئی کی لاہور میں واقعہ زمین قبضہ گروپ سے نہ چھڑا سکے اور آخر کار یہ کام حال ہی میں تعینات کئے گئے لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے کردیا اور یہ عمر شیخ کا وہ کارنامہ بن گیا جس کی وجہ سے وہ وزیراعظم کی آنکھ کا تارا بن گئے، اب چاہے کچھ بھی ہو جائے، کوئی اُنہیں تبدیل نہیں کر سکتا۔

اِس کارنامے کا ذکر خود وزیراعظم نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کیا اور یہ تسلیم کیا کہ جب وزیراعظم اپنے بہنوئی کی زمین کا قبضہ نہیں چھڑوا سکتا تو عام لوگوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ وزیراعظم نے جو کہا، وہ کارنامہ تو نہیں بلکہ پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم عمران خان کے لئے کسی المیے سے کم نہیں۔

اگر وزیراعظم کے کہنے کے باوجود پنجاب حکومت، جو عمران خان کے چہیتے عثمان بزدار چلا رہے ہیں، جنہیں اُنہوں نے ہی وسیم اکرم پلس کا نام دیا، اِس قابل نہیں کہ دو سال تک وزیراعظم کے کہنے کے باوجود اُن کے بہنوئی کی زمین کا قبضہ نہ چھڑا سکے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عام پاکستانیوں کا کیا حال ہوگا؟ اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ایسے کیس صرف صوبہ پنجاب میں ہوں گے جہاں قبضہ گروپوں نے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوگا لیکن اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

چلیں اچھا ہوا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ صاحب نے آتے ہی وزیراعظم کے بہنوئی کی زمین کا قبضہ چھڑوا دیا لیکن کیا وزیراعظم نے عمر شیخ صاحب سے پوچھا کہ یہ مہربانی صرف وزیراعظم کے بہنوئی کے ساتھ کی گئی یا لاہور میں عام لوگوں کی زمینوں کو بھی قبضہ مافیا سے چھڑوا دیا گیا؟ چلیں سو فیصد نہیں تو کم از کم پچاس فیصد تو قبضے چھڑوا ہی دیے گئے ہوں گے۔

اگر لاہور میں واقعی قبضہ مافیا کو ختم کر دیا گیا تو پھر صوبے کے باقی علاقوں میں رہنے والوں کو قبضہ مافیا سے بچانے کے لئے عمران خان اور عثمان بزدار نے کیا سوچا؟ پولیس سروس میں اور عمر شیخ بھی ڈھونڈیں اور اُن کو ہر ضلع میں لگا دیں جو شاید ممکن نہیں ہوگا کیونکہ عمر شیخ تو ایک ہی ہے جس کو دو ماہ پہلے ہی خراب رپورٹوں کی بنیاد پر وزیراعظم نے ترقی دینے سے انکار کیا لیکن اُن انتہائی منفی رپورٹس کے باوجود اُنہیں سی سی پی او تعینات کر دیا گیا۔

عمر شیخ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی اپنے آئی جی کے خلاف، اپنے ماتحت تمام افسروں کے سامنے بات کر دی اور کہا کہ آئی جی نہیں بلکہ اُن کا حکم مانا جائے جس پر عمران خان نے عمر شیخ کی بجائے آئی جی کو ہی تبدیل کردیا۔

لاہور سیالکوٹ موٹروے سانحہ کے متعلق عمر شیخ نے انتہائی متنازعہ بیان دیا جس سے اوروں کے ساتھ ساتھ عمران خان حکومت کے اپنے وزراء بھی ناراض ہوئے اور سی سی پی او لاہور کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن خان صاحب ڈٹے رہے۔

اگر واقعی عمر شیخ اتنے ہی قابل ہیں تو پھر عمران خان صاحب کو چاہئے کہ اُنہیں آئی جی پنجاب بلکہ عثمان بزدار کو ہٹا کر عمر شیخ کو وزیراعلیٰ پنجاب لگا دیں تاکہ جو مہربانی خان صاحب کے بہنوئی کے ساتھ ہوئی، اُس سے پنجاب میں رہنے والے ہزاروں دوسرے متاثرینِ قبضہ گروپ بھی استفادہ حاصل کر سکیں۔


اگر خان صاحب سچ سننے کا حوصلہ رکھتے ہوں تو حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں بدترین طرز حکمرانی کا راج ہے جہاں کسی افسر کو بغیر کسی ’’بڑے‘‘ کی پشت پناہی کے کسی جگہ ٹکنے نہیں دیا جاتا۔ جتنی بڑی تعداد میں افسروں کو گزشتہ ڈھائی سال کے دوران پنجاب میں سیاسی وجوہات کی بنا پر تبدیل کیا گیا، اُس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

اِس وجہ سے گورننس کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ محکموں کے سیکرٹری ہوں یا ضلعوں کے انتظامی اور پولیس افسران، وہ کسی وزیر، مشیر، حکمران پارٹی کے ایم این اے، ایم پی اے اور دوسرے رہنمائوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

عمر شیخ نے وزیراعظم کو خوش کر دیا، چنانچہ اُن کی نوکری توپکی ہو گئی۔ یہ وہ خرابی ہے جسے دور کرنے کا وزیراعظم وعدہ کرکے آئے تھے۔ وہ بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کےعزم کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، اُن کا وعدہ تھا کہ بیوروکریسی میں میرٹ کو یقینی بنایا جائے گا اور کسی قسم کی سیاسی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن اپنے ہی وعدے کے برعکس خان صاحب نے بیوروکریسی اور پولیس کو مزید سیاست زدہ کر دیا۔

ویسے خان صاحب سے درخواست ہے کہ عمر شیخ کو پنجاب کے ساتھ ساتھ وفاق میں بھی اہم ذمہ داریاں دے دیں کیونکہ وہاں بھی قبضہ مافیا بہت سرگرم ہے، یہاں تک کہ سی ڈی اے کے مختلف سیکٹرز بشمول پارک انکلیو کا بھی اربوں روپیہ عوام سے لینے کے باوجودہ پلاٹوں کا قبضہ اِس لیے نہیں دیا جارہا کیونکہ وہاں بھی کچھ قابضین بیٹھے ہیں۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ عمر شیخ کو چند دن کے لئے ہی سہی، وزیراعظم بنا دیں لیکن پنجاب کے ساتھ ساتھ اُن کو اسلام آباد کا آئی جی اور سی ڈی اے کا چیئر مین بھی لگا دیں۔ یہ سب میں اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم کا گورننس ماڈل ہی اب ایسا انوکھا ہو چکا کہ عمر شیخ کو پاکستان کی بیوروکریسی اور پولیس کے لئے رول ماڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اگر کوئی سمجھے تو یہ ایک المیہ ہے۔

تازہ ترین