• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ کو کسی تقریب میں اظہار خیال کی دعوت دی جائے جہاں آپ نے پاکستان کے مسائل کے حوالے سے گفتگو کرنی ہو تو ایسی محفل میں چند سیدھے سادھے ٹوٹکوں کی مدد سے آپ میلہ لوٹ سکتے ہیں۔ ان ٹوٹکوں کا طریقہ استعمال نہایت سادہ ہے ،اس کے لئے کسی تیاری کی ضرورت ہے نہ کسی مطالعے کی ،فقط شعلہ بیانی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔یہ نسخے پکی پکائی ہانڈی کی طرح ہیں جسے فریج سے نکال کر مائیکرو ویو میں گرم کرنا ہے اور عوام کے آگے پیش کر دینا ہے ،عوام خود ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔ان ٹوٹکوں کے اجزائے ترکیبی وہ مقبول عام نعرے ہیں جنہیں سنتے ہی عام آدمی کو جوش آ جاتا ہے اور وہ دیوانہ وار جھومنے لگتا ہے۔ یہ ایسے مجرب نسخے ہیں جن کے استعمال کے لئے موضوع کی قید بھی کوئی معنی نہیں رکھتی ،اگر آپ کو ”پاکستان میں چیچک کے بڑھتے ہوئے مرض “ پر تقریر کے لئے بلایا جارہا ہے تو آپ بلا کھٹکے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاظ پر ایک جوشیلی تقریر کر سکتے ہیں، تالیوں کی گونج سے چھت اُڑ جائے گی ۔تقریب کا موضوع اگر ”سارتر کا تصور وجودیت “ ہو تو بھی کوئی ٹینشن نہیں ،آپ اطمینان سے آٹھویں جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب سے دو قومی نظرئیے سے متعلق کوئی اقتبا س قینچی سے کاٹ کر جیب میں ڈال لائیں اور ہاتھ ہلا ہلا کر اونچی آواز میں پڑھ دیں ،حاضرین آپ کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔اور اگر تقریب میں ”پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ “ کے متعلق اظہار خیال کرنا ہو تو آپ بے دھڑک ”انقلاب “ کے موضوع پر ایک جوشیلی تقریر شروع کر دیں ،اللہ برکت دے گا اور خدا نخواستہ اگر آپ میری طرح ان تمام موضوعات سے نا بلد ہیں تو ”یکساں نظام تعلیم“ کا سدا بہار نعرہ لگا کر مجمع لوٹ لیں ،کوئی مائی کا لعل آپ سے جیت نہیں سکے گا۔
یکساں نظام تعلیم سے کیا مراد ہے ،یہ شائد کوئی بقراط ہی بتا سکتا ہے مگر ایسے نعرے چونکہ عوام کا خون گرمانے کے کام آتے ہیں اس لئے انہیں خاصی پذیرائی ملتی ہے ۔ایک عام آدمی کے نزدیک اس نعرے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اس ملک کے طول و عرض میں ایک ہی نصاب پڑھایا جائے ،تما م تعلیمی اداروں میں یکساں سہولیات میسر ہوں اور غریب کا بچہ بغیر چھت کے سرکاری سکول میں پڑھ کر کلرک میٹریل نہ بنے بلکہ اس کی قابلیت بھی گرائمر سکول میں پڑھنے والے امیر کے بچے کے برابر ہو۔یہ باتیں واقعی دلفریب ہیں اور ان پر clapبنتی ہے لیکن اگر محض تالیوں سے کام چلتا ہو تو یہ ملک کب کا سپر پاور بن چکا ہوتا کیونکہ اپنی بے سروپا باتوں پر تالیاں بجانے کے ہم چمپئن ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ 2006ء سے پاکستان میں ایک قومی نصاب موجود ہے جو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ العمل ہے ۔ نصاب میں طالب علموں کے لئے learning outcomesکی نشاندہی کی جاتی ہے جس کی مثال ایسے ہے کہ پانچویں جماعت کا بچہ اردو کے مضمون میں اس قابل ہو جائے گا کہ وہ ایک چھٹی کی درخواست لکھ سکے یا تیسری جماعت کا بچہ معاشرتی علوم کے مضمون میں اس قابل ہو جائے گا کہ وہ نقشے میں پاکستان تلاش کر سکے وغیرہ وغیرہ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد نصاب بنانے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے مگر ابھی تک ہر صوبے میں 2006ء والا قومی نصاب ہی رائج ہے با الفاظ دیگر یکساں نصاب پورے ملک میں نافذ ہے۔ اس نصاب کی روشنی میں صوبے Scheme of Studiesبناتے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو کس جماعت میں کون سا مضمون کس انداز میں اور کتنے وقت میں پڑھایا جائے جس سے وہ learning outcomeحاصل کئے جا سکیں جو قومی نصاب میں لکھ دئیے گئے ہیں ۔
اس کے بعد کا مرحلہ نصابی کتب کا ہے اور یہیں سے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کا فرق نمایاں ہونا شروع ہو تا ہے ۔کوئی بھی سرکاری یا نجی ادارہ قومی نصاب کی روشنی میں کتاب تیار کر کےProvincial Curriculum Authority کو منظوری کے لئے بھجوا سکتا ہے۔جس کتاب کی منظوری یہ اتھارٹی دے گی وہی کتاب ٹیکسٹ بک بورڈ چھاپے گا اور اسی کتاب سے امتحانی پرچہ بنایا جائے گا اوریہی منظور شدہ کتاب سرکاری سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی سکولوں میں سرکار کی منظور شدہ کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ آکسفورڈ اور سنگاپور کی چھپی ہوئی رنگا رنگ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تاہم ان کتابوں سے بھی وہ learning outcomesبا آسانی حاصل ہو جاتے ہیں جو قومی نصاب میں شامل ہیں ۔فیر رولا کس گل دا؟
پوری دنیا میں نام نہاد یکساں نظام تعلیم کہیں بھی رائج نہیں ،ہر ملک میں نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جہاں قومی نصاب کی روشنی میں ٹیکسٹ بکس پڑھائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں تو مدرسے بھی ہیں تو کیا یکساں تعلیم کا نعرہ لگانے والے مدرسے بند کر کے عوام کو دینی تعلیم کے حق سے محروم کر نا چاہتے ہیں ؟ اگر جوا ب نہیں میں ہے تو کیا کسی دوسرے بچے سے یہ حق چھینا جا سکتا ہے کہ وہ صرف میٹرک کرے، او لیول نہ کرے ؟ اصولی طور پر اس کا جواب بھی نہیں ہونا چاہئے ۔اگر اس ملک میں ایچیسن ،پٹارو،برن ہال ،حسن ابدال اور نجی شعبے میں دیگر بہترین سکول قائم ہیں تو کیا یہ ادارے ”یکساں“ نظام تعلیم کے نام پر بند کر دئیے جائیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔تو پھر یکساں نظام تعلیم کس چڑیا کا نام ہے ؟جی درست فرمایا ،تمام سرکاری سکولوں کا معیار ایسا بنا دیا جائے جہاں غریب کا بچہ بھی ویسی ہی کوالٹی ایجوکیشن حاصل کر سکے جو امیر کا بچہ ایچیسن میں حاصل کرتا ہے ۔بہت اچھی بات ہے تو پھر دانش سکول پر پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتے ہیں ،دانش سکول بھی تو غریب کے بچے کو ایچیسن کا معیار تعلیم دینے کی ہی کوشش ہے !
دراصل جب ہمیں یکساں نظام تعلیم کا نعرہ رٹایا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں کچھ ایسا خاکہ بن جاتا ہے جس میں ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ سرکاری سکولوں کی سہولیات بھی نجی سکولوں کی طرح ہوں جہاں سکول کی عمارت صاف ستھری ہو ،اعلیٰ معیار کی سائنس لیبارٹری ہو ،استاد کی حاضری یقینی ہو،بچوں کے لئے سکول فرنیچر ،پینے کا صاف پانی ،بجلی اور ٹوائلٹ جیسی بنیادی ضروریات موجود ہوں ،غرض سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ایک uniformityہو۔یقینا یہ باتیں نہایت مناسب ہیں مگر ان کا تعلق یکساں نظا م تعلیم سے نہیں بلکہ پیسوں سے ہے ۔صرف پنجاب میں 61,000کے قریب سرکاری سکول ہیں ،اگر ان سکولوں میں صرف تین بنیادی ضروریات ہی پوری کرنی ہوں تو حکومت کو 150ارب کے قریب روپے درکار ہوں گے۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ ملک میں کوئی ایسا نظام تعلیم نافذ ہو گیا ہے جس میں سوائے سرکاری سکولوں سے میٹرک کرنے پر پابندی ہے ،اس صورت میں کیا ہوگا؟ ایسی صورتحال میں امیروں کے بچے گھروں پر او لیول اور اے لیول کی ٹیوشن پڑھنی شروع کر دیں گے اور ان کی سندیں باہر سے آئیں گی اور جو زیادہ امیر ہوں گے وہ سیدھا آکسفورڈ جا کر پڑھ آئیں گے اور واپس آ کر عام آدمی کو یکساں نظام تعلیم کا لالی پاپ دیں گے تاکہ ملک میں کلرک میٹریل پیدا ہوتا رہے اور وہ با آسانی اس پر حکومت کر سکیں ۔ملک میں جو لوگ یکساں نظام تعلیم کا نعرہ لگارہے ہیں ان کے اپنے بچے خیر سے انگریزوں کی گود میں پل رہے ہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ اس ملک میں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئے مگر اس نظام کو اپنے اوپر نافذ کرنے پر کوئی تیار نہیں !
تازہ ترین