• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حفصہ صدیقی

میری عُمر 52 برس ہے۔ یورپی مُلک سے پی ایچ ڈی کرنے اور کچھ سال وہاں ملازمت اور تدریس کا فریضہ انجام دینے کے بعد مَیں نے اپنے مُلک کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ویسے تو میرا شمار یو نی و رسٹی کے سینئر اساتذہ میں ہوتا ہے، مگرمَیں خود شوق سے فرسٹ ایئر کو ایک کورس ضرور پڑھاتا ہوںکہ یہ چمکتے شاداب چہرے ، آنکھوں میں خواب سجائے یہ طلبہ ہمیشہ ہی مجھےاچھے لگتےہیں۔ 

خود میرا اور میرے ساتھی اساتذہ کا بھی یہی خیال ہے کہ فرسٹ ائیر ہمیشہ بہترین اساتذہ کی زیرِ نگرانی پروان چڑھنی چاہیےکہ یہ نو آورد بہت سےخوابوں ، اُمیدوں ، توقعات اور توانائیوں کے ساتھ مادرِ علمی میں داخل ہوتے ہیں ۔ اگر پہلے ہی سال انہیں مایوسی، بے توجہی کا سامنا کرنا پڑے، توپھرکسی صُورت پڑھائی میں ان کا دل نہیں لگتا۔یہی وجہ تھی کہ مَیںبالخصوص فرسٹ ایئر کے تمام لیکچرز کی خُوب تیاری کرتاتاکہ نئے طلبہ کا دھیان پڑھائی میں لگے، ان میں پڑھنے اور سیکھنے کا جذبہ برقراررہ سکے۔

آج کی کلاس کچھ غیر معمولی سی تھی، لیکن کیوں، مَیں سمجھنے سے قاصر تھا۔ کئی طلبہ کے بیچ وہ ایک چہرہ… ایک طالبہ، جس کی آنکھیں مجھے کسی عجیب کیفیت میں مبتلا کررہی تھیں ۔ میرے بیس سالہ تدریسی کیرئیر میں یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ دورانِ لیکچر میرا ذہن بھٹک رہا تھا۔کلاس ختم ہونے کے بعد بھی وہ چہرہ میری نظروں کے سامنے آتارہا۔ جو لوگ جامعات کی تدریس سے آشنا ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ عام ملازمتوں کے بر عکس اساتذہ کو ہمہ وقت تحقیقی وتعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہنا پڑتا ہے۔ اپنے تحقیقی کاموں کے علاوہ طلبہ کے تحقیقی اور علمی کاموں کی نگرانی بھی انہی کا فریضہ ہوتی ہے، لیکن اس دن میرا ذہن کسی کام پر مرکوز ہی نہیں ہوپارہا تھا۔ 

بالآخر مَیں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔گھر جا کر اپنی چھوٹی سی لائبریری میں بیٹھ گیااور ذہن کو دوبارہ لکھنےپڑھنے پر آمادہ کرنے لگا۔ لیکن دل و دماغ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس صورتِ حال کے بعد میں نے مصمّم ارادہ کرلیا کہ اس کلاس کو پڑھانے سے معذرت کرلوں گا ،حالاں کہ یہ میرا طریقہ نہیں تھا، لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ اس دن میٹنگ رُوم میں تمام اساتذہ ہی موجود تھے ، صدر شعبہ نے بتایا کہ کسی استاد نے فرسٹ ائیر کا کورس پڑھانے سے معذرت کرلی ہے، اب بیچ سیمیسٹر میں کسے ان کاکورس دیا جائے۔’’آپ یہ کورس مجھے دے دیں ۔‘‘ مَیں نے غیر ارادی طور پرکہا توچیئرمین سمیت سب ہی حیران ہوگئے کہ میرے پاس تواپنے تحقیقی پراجیکٹس اتنے تھےکہ وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔ ’’آر یو شیور شاہد صاحب ؟؟‘‘ صدر شعبہ نے ایک بار پھر تصدیق چاہی۔ ’’یس آئی ایم۔‘‘ مَیں نے اطمینان سے جواب دیا ۔ ’’چلیں بھئی ،آپ نے تو میری مشکل ہی آسان کر دی۔ ‘‘اب وہ بچّی ،جس کی پہلی جھلک نے مجھے بے چین سا کر دیا تھا، زیادہ تر میرے سامنے رہتی، جسے دیکھ کر مجھے بھی طمانیت کا احساس ہوتا ۔‘‘

’’بیٹا آپ کے والد کیا کرتے ہیں ؟‘‘ایک دن وہ کسی پراجیکٹ کے سلسلے میں میرے پاس آئی تو مَیں نے بے اختیار ہی پوچھ لیا۔’’پتا نہیں سر! اس نے سر جُھکا کر جواب دیا۔ ’’کیا مطلب ؟‘‘مَیں ایک دم چونکا۔’’میرے بابا ،میرے پیدا ہونے سےپہلے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘‘ اب اس کے لہجے میں درد اور غصّہ تھا۔’’اوہ سو سوری بیٹا !‘‘وہ تو چلی گئی ، لیکن میراماضی اچانک ہی میرے سامنے آگیا۔ ’’خدا کے لیے آپ مجھ سے اپنا نام نہ چھینیں۔آپ باہر جانا چاہتے ہیں،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں،شوق سے جائیں۔ چاہیں تو دوسری شادی بھی کرلیں، لیکن مجھے طلاق نہ دیں۔‘‘ ’’دیکھو رخسانہ! مَیں اب واپس نہیں آؤں گا ۔ 

سو،بہتر یہی ہے کہ تمہیں آزاد کرکے جاؤںتاکہ تم میری پابند نہ رہواور اپنی زندگی اپنے مطابق گزار سکو۔‘‘ پروفیسر، شاہد رخسانہ کو دو ٹوک جواب دیتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئےاور پھر پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا۔مجھے اس عورت سے نفرت نہیں ،ہم دردی تھی، خاندانی دباؤ پر مَیں نے اس سے شادی تو کرلی تھی، لیکن غیر ملکی یونی وَرسٹی میں اسکالر شپ اور داخلے کے بعد اسے آزاد کرکے جانا چاہتا تھا۔ میرے خواب ،میرے عزائم بہت بلندتھے ،مَیں فی الحال کوئی بیڑی اپنے پاؤں میں نہیں رکھنا چاہتا تھااور ویسے بھی وہ اَن پڑھ عورت میرے اسٹیٹس سے میچ نہیں کرتی تھی اور نہ ہی میری زندگی کے اس سفرمیں میرا ساتھ دینے کے قابل تھی۔ 

مگر عجیب عورت تھی، جو پوری زندگی محض میرے نام پر اکیلے گزارنے پر بضد تھی، ایسی باتیں توافسانوں میں بھی افسانوی لگتی ہیں، لیکن وہ تو جیسےکسی اور ہی دنیا کی عورت تھی۔ شاید اُس کی اِسی سادگی اور بھولپن کی وجہ سے مَیںنے اُس کی بات کی اتنی لاج رکھی کہ اسے طلاق نہیں دی، مگر اُسےروتا چھوڑ کر اپنے خوابوں کے حصول کی طرف ضرورنکل گیا۔مجھے معلوم تھا کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے والے پیچھے رہ جاتے ہیںاورمجھے آگے جانا تھا، اس لیے پیچھے رہ جانے والوں کو بھول جانا ہی بہتر تھا۔ لیکن آج اتنے سال بعد اس عام سی لڑکی نے میرا ماضی میرے سامنے لا کھڑا کیا۔

ایک دن طلبہ کی امتحانی کاپیاں چیک کرتے ہوئےاس بچّی کا لاسٹ نیم دیکھ کر مَیں چونک سا گیاکہ یہ نام میرا خاندانی،بلکہ میری ہی برادری کا تھا۔ وہ پراجیکٹ کے بارے میں کچھ ڈِسکس کرنے میرے آفس آئی، تو مَیں نے باتوں ہی باتوں میں اُس سے پوچھا’’ آپ کے والد کا نام کیا ہے؟‘‘’’سر! مَیں فادرز نیم میں اپنے نانا کا نام لکھتی ہوں، کیوں کہ میرے بابا نہ تو زندہ ہیں، نہ مُردہ ۔مجھے تو اُن کا نام تک نہیں پتا، اُن کے بارے میں کچھ پتا ہے تو بس یہ کہ وہ میری پیدایش سے پہلے ہی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور واپس کبھی نہیں لَوٹے۔‘‘’’آپ کی والدہ کا کیا نام ہے؟‘‘ ’’رخسانہ‘‘ اس کا جواب میرے لیے کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ 

آج سمجھ آیا کہ اس اَن جانی بچّی میں مجھے اتنی کشش کیوں محسوس ہوتی تھی، کیوں وہ مجھے اتنی اپنی اپنی سی لگتی تھی کہ وہ تو میرا ہی خون ہے۔ ‘‘ مجھے ایسا لگا، جیسے کسی نے پیروں تلے زمین کھینچ لی ہو۔’’کیا ہوا سر…؟‘‘ میری حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔ ’’ میری شوگر لو ہو رہی ہے، آپ جائیں ۔‘‘’’ او کے سر‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی باہر نکل گئی۔ا س کے جاتے ہی مَیں نے ایڈمن آفس سے اس کے ڈاکومینٹس منگوائے تاکہ شکوک و شبہات دُور کر سکوں۔ 

فارم کے کوائف چیخ چیخ کر بتارہے تھے کہ یہ میری ہی اولاد ہے، مَیں جس کے وجود سے بھی بے خبر تھا۔ لیکن اس انکشاف نے میری اذّیت میں بے پناہ اضافہ کردیاکہ میری اولاد میرے سامنے تھی ، مگرمَیں اُسےگلے نہیں لگا سکتا تھا۔ مَیں دنیا کی نظر میں انتہائی کام یاب شخص تھا، مگر صرف مَیں جانتا تھا کہ مجھ سے زیادہ بے بس اور نا کام انسان کوئی نہیں۔

’’ بیٹا آپ کی کمیونٹی کو میں جانتا ہوں، وہاں تو لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلوائی جاتی ، تو آپ کیسے تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟‘‘ ’’سر! میری امی کو ان کے شوہر نے اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ اَن پڑھ تھیں، تومیری امّی نہیں چاہتی تھیںکہ میری قسمت بھی اُن کے جیسی ہو۔انہوں نے مجھے تعلیم دلوانے کے لیے بہت مصیبتیں اُٹھائیں۔ مَیں تواُن سے کہتی ہوں کہ ہر آدمی میرے باپ کی طرح خود غرض اور کم ظرف نہیں ہوتا، پر وہ مجھے، میرے باپ کو غلط بھی نہیں کہنے دیتیں۔‘‘ مجھے ایسا لگا، جیسے کسی نے میرے منہ پر طمانچہ مارا ہو۔ مَیں جس اذیت سے گزر رہا تھا، کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری موجودہ بیوی، جوانتہائی قابل، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور میری ہم راز تھی، اُسے بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ مَیں کس کرب سے گزر رہا ہوں۔ 

گویا، پیاس شدّت کی تھی اور پانی میں زہربھی تھا ۔پیتا بھی تو مرجاتا ، نہ پیتا توبھی مرجاتا۔ سو، مَیں نے اس کے نانا کو کال کی ، انہیں تمام صورتِ حال سے آگاہ کیا اور ان سے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ اب اپنی بیوی ،بیٹی کے تمام اخراجات مَیں ہی اُٹھاؤں گا۔ گو کہ مَیں وہ کم زور شخص ہوں، جو معاشرے کے دباؤ اور اپنی کم ظرفی کے تحت انہیں اپنا نام تو نہیں دے سکتا، لیکن انہیں مزید معاشی پریشانی نہیں اُٹھانے دوں گا۔ ایسا کرنے سے میرے دل اور گناہوں کا بوجھ ختم ہوگا، نہ ہی مجھے سکون آئے گا، پر کم از کم روزِ آخرت تھوڑی شرمندگی سے تو بچ جاؤں گا۔مگر…وہ بھی اُس ’’خوددار‘‘ہی کے باپ تھے۔ ’’سوری، رانگ نمبر‘‘ کہہ کر فون بند کردیا۔

تازہ ترین