• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ اپنی دلہن کو اپنے سُسرال سے بھی اِسی طرح لے کر آئے تھے۔ جب شادی کی ہنگامہ خیز تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو جناح پونجا کو بتایا گیا کہ ان کی بہو اور داماد روایت کے مطابق تین مہینے ابھی یہیں قیام کریں گے۔ یہ سُن کر جناح پونجا کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کراچی میں اُن کا کاروبار ان کا منتظر تھا۔ انھوں نے چاہا کہ بیوی اور بیٹے کو چھوڑ کر اکیلے ہی روانہ ہوجائیں۔ لیکن بیوی اس بات کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ کہا تو یہ کہا کہ ’’اگر تین مہینے کی شرط ہی پوری کرنی ہے، تو مَیں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ نوجوان محمّد علی جناح کو یہ رسم خاصی احمقانہ لگی۔ 

ایک دن والدین کو بتائے بغیر اپنے سُسر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’مجھے آپ لوگوں کی رسوم و روایات کا پورا احترام ہے، لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں تین مہینے یہاں قیام کرنے سے قاصر ہوں۔ خواہش تو یہی ہے کہ آپ کی بیٹی میرے ساتھ چلی چلیں، لیکن ایسا ممکن نہ ہو تو آپ بے شک اُنھیں اپنے ساتھ رکھیں اور جب بھی مناسب سمجھیں اُنھیں ان کے نئے گھر پہنچا دیں۔ میرا خیال ہے یہ مسئلے کا ایک معقول حل ہے۔‘‘ داماد نے اتنے سلجھے ہوئے انداز میں اپنا مقدمہ پیش کیا تھا کہ سُسر صاحب کے پاس انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی۔ یوں محمّد علی جناح اپنی دلہن اور والدین کے ہم راہ کراچی لوٹ آئے۔ اور اب اُنھیں لندن کے سفر کا سامنا تھا۔

لندن پہنچ کر وہ ابھی حالات کی سختی سے نبرد آزماتھےکہ یہ منحوس اطلاع آئی کہ اُن کی جواں سال اہلیہ طاعون کے مرض میں مبتلا ہوکر اُن کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ یہ پہلا چرکا تھا، جو محمّد علی جناح کےحسّاس دل کو لگا۔ اِس سے پہلےکہ وہ ٹوٹ کربکھرتے، اُنھوں نےخودکو سنبھال لیا۔ اہلیہ ایمی بائی کےساتھ اُن کا زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے، ایک رشتہ جسم و روح کا قائم تو ہوگیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یادیں زیادہ اور گہری نہیں تھیں۔ ہنسنے بولنے، ساتھ ساتھ ایک مدّت تک اٹھنےبیٹھنے، مل کےدُکھ سُکھ سہنے سے جس طرح دووجود ایک دوسرےکےقریب آتےجاتے ہیں، یہاں تک کہ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ 

رتی کے جناح (قسط نمبر …4)
رتن بائی کے والد، سر ڈنشا مانک جی پٹیٹ اور والدہ لیڈی پٹیٹ

ایک کا دُکھ دوسرے کا اور سُکھ بھی باہمی ہوجاتےہیں۔ فرقت اورجدائی کاذرا سا تصوّر بھی جان لیوا معلوم ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان تو وہ وقت آنے سے پہلے ہی محمّد علی جناح کو اپنی نوبیاہتا دلہن کو الوداع کہنا پڑا۔ نہیں معلوم یہ جدائی اُنھیں کتنی شاق گزری ہوگی۔ لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوا ہو توگھر سے رخصت ہوتے ہوئے اُنھیں یہ یقین تو رہا ہوگا کہ ایک نہ ایک دن وہ واپس آئیں گے اور پھر باقی زندگی اپنی دلہن کے ساتھ بِتائیں گے۔ لیکن جب ایسا نہ ہوسکا اور جس بارے میں انھوں نے خواب و خیال میں سوچا تک نہ تھا تو کیا اُن کا دل زخمی نہ ہوا ہوگا۔ 

جب کہ غیر جذباتی ہونے کے باوجود قدرت نے اُن کے سینے میں ایک ایسا دل رکھ دیا تھا جو بہت زیادہ محسوس کرنےوالاتھا۔ اپنےہی نہیں، دوسروں کےبھی دُکھ، درد سمجھنے اور محسوس کرنے والا دل۔قدرت انسان پر بہت مہربان ہے۔ اُس نے انسان کے نصیب میں حادثے، سانحے اور پریشانیاں لکھی ہیں تو اُسے برداشت اور حوصلہ بھی دیا ہے۔ وہ یاد رکھتا ہےتوبھول بھی جاتاہے۔خصوصاًتکلیفوں اور حادثوں کو۔ اور یاد رہیں بھی تو شدّت نہیں رہتی۔ اذّیت حافظے میں محفوظ یادوں سے نکل جاتی ہے۔ اسی لیے تکلیف دہ واقعات کو یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔

پُراعتماد، کام یاب شخصیت کے مالک

محمّد علی جناح جب رتی سےملے تھے، تو وہ مختلف حالات اور سانحات سے گزر کر، رکاوٹوں کو عبورکرتےکرتےایک بہت پُراعتماد اورکامیاب شخصیت کے مالک بن چُکےتھے۔ سرڈنشا پٹیٹ کا شمار بمبئی کے رئوسا میں ہوتا تھا۔ وہ ایک ایسے بااثر پارسی تھے، جن کا اثرحکومت کے دفاتر میں بھی پایا جاتا تھا۔ محمّد علی جناح کی ان سے ملاقات کلبوں سے ہوکرگھرتک جاپہنچی تھی اوراس درجہ بے تکلفی میں بدل چُکی تھی کہ سرڈنشا اُنھیں اپنے گھرانے کے ایک معزّز فرد کی طرح اہمیت دینے لگے تھے۔ بمبئی اس زمانے میں سیاست اور وکالت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اِسی لیےانھوں نے اپنے والد جناح پونجا کے اصرار کے باوجود کراچی کے بجائے بمبئی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن یہ آسان فیصلہ نہ تھا۔ 

انھوں نے وکالت کا آغاز کیا تو ان کے مالی حالات ابتر تھے۔ وہ پیدل چل کر عدالت جاتے تھے اور برسوں تک یہ اُن کا معمول رہا۔ ابتدا میں تو کسی سےجان پہچان و شناسائی بھی نہ تھی، تو کوئی مقدمہ بھی نہیں ملتا تھا۔ پھر اُن کے تعلقات قائم ہونے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ دائرہ ٔ احباب بڑھنے لگا۔ محمّدعلی جناح میں ایک بات تھی کہ جو بھی اُن سے ملتا، متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ وہ ایک صاف گو، اصول پسند اور معاملات کے صاف آدمی تھے۔ دوسروں کی عزّت کرتےاور اپنی عزّت کرواناجانتےتھے۔اُن کایہ کھراپن بہت سوں کو کھٹکتا تھا۔ خصوصاً ایسے لوگوں کو کہ جو احترامِ آدمّیت کےتصوّر ہی سے ناآشنا تھے۔ انگریزوں نے اپنے دوراستبداد میں ہندوستان کے اندر جو لوٹ کھسوٹ کی تھی وہ تو اپنی جگہ، لیکن اُن کا سب سے بڑا ظلم جو ناقابل معافی تھا، وہ یہی تھا کہ انھوں نے احترامِ آدمّیت کو اپنے پائوں تلے روند دیا تھا۔ انگریز دوسرے انگریز کو محترم سمجھتا تھا لیکن وہ کسی ہندوستانی کے لیے ایسے کسی جذبے کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا تھا۔ 

وہ آقا تھا اور یہ تو حقیقت تھی کہ وہ آقا تھا، لیکن اپنے آپ کو اگر صرف آقا سمجھتاتو بھی غنیمت تھا۔ اُس کی بدمعاشی یہ تھی کہ وہ جن پر حاکم تھا، اُن کو اپنا غلام سمجھ کر سامنے بٹھانے کا بھی روادار نہ تھا۔ کیوں کہ اگر غلام آقا کے سامنے بیٹھ جاتا تو یہ اُس کی تذلیل ہوتی۔ اور گورے کو یہ کب گوارا تھا کہ کالا اس کے مساوی ہو جائے، چناں چہ کئی صدیوں تک اس توہین و تذلیل کو سہتے سہتے پڑھے لکھےہندوستانیوں کے دِلوں میں بھی کم تری اور ذلّت کاایک پوشیدہ احساس بیٹھ ساگیا تھا۔ وہ انگریزی بولتے، انگریزی لباس پہنتے، چُھری کانٹے سے میز پہ بیٹھ کے کھانا، کھانا تو سیکھ گئے تھے لیکن انگریزوں کی نقل کرکے ان جیسے ہوکے بھی وہ اپنی غلامی کےاحساس سےپیچھانہ چھڑا سکے تھے۔ محمّد علی جناح وہ پہلے مسلمان ہندوستانی تھے، جنھوں نےانگریزوں کے سامنے ہندوستانیوں کی عزّت بحال کی۔ 

اُنھوں نے انگریزوں کے سامنے اپنی عزّت و وقار پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ کسی انگریز نے خواہ وہ وائسرائے ہی کیوں نہ ہو، اگر اُن کی توہین کی کوشش کی تو اُنھوں نے پلٹ کر نہایت جرأت و بےخوفی سے ایسا جواب دیا کہ سدا یاد ہی رہا۔ وہ اس معاملےمیں انگریزوں کو معافی کےقابل ہی نہیں سمجھتےتھے۔ وکلا حضرات ججوں سے کتنا ڈرتے اور کتنا احترام کرتے ہیں۔ لیکن جناح نے کبھی کسی ایسے انگریز جج کو بھی نہیں بخشا، جس نے اُن سے بدتمیزی کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ ان کی سچائی اور اپنی ذات پر اعتماد تھا کہ کسی جج کو ان پر توہینِ عدالت کا الزام تک عاید کرنے کی ہمّت نہ ہوسکی اور ایک کام تو انھوں نے ایساکردکھایا، جس کاتصوّر بھی کسی ہندوستانی سےکرنا ممکن نہ تھا۔ انھوں نے عارضی مجسٹریٹ کی حیثیت سے ایک انگریز کو جرمانے کی سزا دے دی تھی، باوجود اس کے معافی مانگنے کے کہ وہ ایک ہندوستانی سپاہی کو تھپڑ مارنے کے جرم کا مرتکب ہوا تھا۔ تب محمّدعلی جناح کے کیریئر کی ابتدا تھی، اُنھیں زیادہ لوگ جانتے بھی نہ تھے۔ اُن کا ایک گورے کے خلاف فیصلہ اُن کے پورے کیریئر کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتا تھا، لیکن انھوں نے پروا نہ کی اور ایک ایسا فیصلہ کیا، جو کوئی معمولی مجسٹریٹ کبھی نہ کرسکتا تھا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ معمولی مجسٹریٹ تھے ہی نہیں۔

ایسا تو نہیں تھا کہ محمّد علی جناح نے جب سر ڈنشاپٹیٹ کےگھرآناجانا شروع کیا اور رتی سے بھی اُن کی شناسائی جلدہی گہرےتعلقات میں بدل گئی تو رتی نہیں جانتی تھیں کہ یہ دراز قامت، ذہین و فطین اور خوش کلام و خود اعتماد آدمی کون ہے، جس کو اُن کےپاپا اتنی اہمیت دیتےہیں کہ اپنادوست سمجھتے ہیں۔ رتی اور جناح کی عُمروں میں بہت فرق تھا، تقریباً دُگنے سے بھی زیادہ۔ مگر محبّت تو اِسی لیے محبّت ہے کہ وہ عُمر، نسل، ذات، مذہب کچھ بھی کہاں دیکھتی ہے۔ سچ پوچھیے تو محبّت سارے بندھنوں کو توڑ دینے ہی کا نام ہے۔ وہ محبّت ہی کیا، جو مصلحت اور پابندی کو خاطر میں لائے۔ محبت نڈر، بےباک ہوتی ہے اور شاید بے وقوف بھی۔ تو محبّت کےمعاملے میں رتی بے وقوف تو نہیں مگر معصوم ضرورتھیں۔ اور محمّد علی جناح… کیا اُن سے متعلق بھی یہی کہا جائے گا؟ کچھ کہا جائے یا نہ کہا جائے، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ پہلی بار، زندگی میں پہلی بار بےبس ہوئے تھے۔ محبّت میں آدمی بےبس ہی تو ہوتا ہے۔ بے بس ہی تو کر دیتی ہے محبّت۔

اُس رات دارجلنگ میں آتش دان کے سامنے سگار پیتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوبےمحمّد علی جناح یہی کر رہے تھے۔ اپنی بےبسی پر غور و فکر۔ قدرت نے اُنھیں سوچنے والا تجزیاتی ذہن دیا تھا۔ مگر آدمی ذہن سے کب محبّت کرتا ہے؟ محبّت دل سے ہوتی ہے اور ذہن دل کے معاملے پر سوچتا ہے۔ کیا عجب کہ اُس رات وہ اس شش و پنج میں ہوں کہ اپنے دل کو ذہن کے قابو میں کیسے لائیں۔ رتی کے اظہار محبّت اور یہ کہنے پر کہ ’’اب جیوں گی تو آپ ہی کے ساتھ اور کوئی راستہ نہیں ہے میرے پاس۔‘‘ انھوں نےکوئی جواب نہیں دیاتھا۔ وہ کوئی نوعُمر، جذباتی انسان تو تھے نہیں کہ فوراً اپنے جذبات کی نمائش کرڈالتے۔ اُنھیں سوچنے سمجھنے کےلیےوقت درکار تھا۔ اس لیےکہ اب معاملہ آپڑا تھازندگی بھر کاساتھ نبھانےکا۔ اوروہ کارزار حیات کے سب سودو زیاں سے خُوب اچھی طرح واقف تھے۔ 

عُمروں کا فرق اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا، مگر رتی پارسی گھرانے کی چشم و چراغ تھیں۔ رہے جناح تو ابھی انسانیت ہی اُن کے نزدیک سب سے بڑامذہب تھا کہ اب تک مذہب پر انھوں نے سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں تھا۔ اُن کےنزدیک تمام انسان برابر، ایک جیسےتھے۔ اُنھیں خانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا تھا۔ اُس وقت اُن کے سامنے مذہب کا معاملہ بھی انسان کو ایک خانے میں ڈال کر اُس کےبارے میں فیصلہ کرنے کامعاملہ تھا، جو ان کےلیے ناقابلِ قبول تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوستان آئےاور سیاست کی دنیا میں قدم رکھا تو آسانی سےکانگریس میں شامل ہوگئے۔ اُن کے لیے یہ حقیقت کوئی معنی نہ رکھتی تھی کہ کانگریسیوں کی اکثریت ہندوئوں پرمشتمل ہے۔جب وہ کانگریس میں گئےتو انھوں نے ایسے ہندو رہنمائوں کو بھی وہاں پایا، جو اُن ہی کی طرح انسانیت کو اپنا مذہب سمجھتے تھے۔ 

چاہے وہ بینر جی، فیروز شاہ مہتا اور گوکھلے ہوں یا اُن سے بڑھ کر دادا بھائی نوروجی، جو ان کے لیے گرو کی حیثیت رکھتے تھےاور جن سےاُن کےمراسم لندن میں قیام کے زمانے ہی میں ہوگئے تھے۔ اُس وقت تک وہ خود کو صرف انسان سمجھتے تھے اور اِس سے آگے اگر وہ کچھ تھے، تو ہندوستانی، پکّے ہندوستانی۔ اُن کے دل میں انگریزوں کے لیے بھی کوئی تعصّب نہ تھا۔ ان کے باوقار مراسم انگریز افسروں، وکلاء اورججوں سے تھے اور وہ اُن کی بھی ایسےہی عزّت کرتے تھے، جیسے اپنی۔ آج پہلی بار، ہاں پہلی بار مذہب ایک سوال بن کر اُن کے سامنے آکھڑا ہوا تھا کہ جب ایک پارسی دوشیزہ نے اُنھیں اپنی زندگی، مستقبل کے سب خوابوں، خوشیوں، فیصلوں میں شریک کرنا چاہا تھا۔ ’’رتی تو پارسی ہیں‘‘ انھوں نے سوچا۔ ’’اگر رتی پارسی ہیں تو پھر میرا مذہب کیا ہے؟

مگر مَیں نے تو اپنے مذہب کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ کیا مذہب انسان کے لیے ضروری ہے؟کیا ایک مذہب کے مان لینے سےآدمی دوسرے مذہب کے لیے قابلِ قبول نہیں رہتا۔ اگر ایسا ہےتو پھر کیا مذہب آدمی کو تنگ نظری سکھاتا ہے؟میرا خیال ہے مجھے مذہب کے بارے میں جاننا چاہیے۔ میرا تعلق اسماعیلی خوجہ فرقے سے ہے۔ یہ فرقہ کیا ہے؟ اس کے عقائد کیا ہیں؟‘‘یہ وہ سوالات تھے، جو محمّد علی جناح کے ذہن میں گونجے، لیکن پریشانی یہ تھی کہ ان سوالات کے جوابات اچھے خاصے وقت اور مہلت طلب تھے۔ وہ لائبریری جاکر کتابیں کھنگالتے اور ان سوالوں کا جواب حاصل کرتے، اتنا وقت ہی کہاں تھا؟ اِس وقت تو ایک ہی سوال آکھڑا ہوا تھا کہ رتی نےجو کچھ اُن سےکہہ ڈالا ہے، اس کا کیا جواب دیا جائے؟

محمّد علی جناح ، مشکل راستے پر…

بہار کا موسم تھا، جب باغوں میں ہر سُو پھول کِھل اٹھتے ہیں، درختوں کے پتّے ہرے اور تازہ تازہ سے محسوس ہوتےہیں۔ تتلیاں پھولوں پر بیٹھتی اور بھونرے اُن کا رس چوس کر اُڑ جاتے ہیں۔ فضائوں میں طیور گنگناتے، اڑانیں بھرتے ہیں۔ ہاں ایسا ہی موسم تھا، جب محمّد علی جناح نے رتی سےکہا تھاکہ ابھی نہیں، ابھی وقت نہیں آیا۔ ابھی انتظار کرتے ہیں۔ تم بھی اور مَیں بھی، ہم دونوں انتظار کرتے ہیں۔ اُس وقت تک شاید حالات سازگار ہوجائیں، ہمارےحق میں ہم وارہوجائیں اور نہ بھی ہوں تو ہمارے لیے کورٹ میرج کا راستہ کُھلا ہے، مگر اس کے لیے بلوغت ضروری ہے۔ رتی ابھی اٹھارہ برس کی نہیں ہوئی تھیں۔ ابھی دو ایک سال کا وقت تھا،پھر وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوجاتیں۔

قانون انھیں یہ حق دے دیتا کہ وہ جس کےساتھ چاہیں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتی ہیں۔ محمّد علی جناح کو معلوم تھا کہ ایسا کرنا ہی چاہیے۔ محبّت کسی قانون کو نہیں مانتی، نہ مانے لیکن اُن کا ذہن تو قانون کو مانتا تھا۔ محبّت کرنے والوں سے انسانی تاریخ بَھری پڑی ہے اور طوفانی محبّت نےتو کتنی ہی لافانی داستانوں، افسانوں کو جنم دیا ہے۔ لیکن کسی بھی افسانوی یا حقیقی داستان میں آپ کو قانون کی پابندی نہیں ملے گی۔ محبّت کرنے والے جب جینے مرنے کا عہد کرلیں تو پھر وہ ایسا کر گزرتے ہیں۔ وفا یا بے وفائی تیسرا کوئی راستہ ہوتا ہی نہیں۔ وفا کرنی ہے،مگر قانون پسندی کے ساتھ۔ قانون نہیں توڑنا، قانون کے ساتھ ہی چلنا ہے۔

اُس دروازے سے وفا اور وفاداری کے باغوں میں قدم رکھنا ہے، جوقانون اور سماج نےکھول رکھا ہے۔ اپنی محبّت کے لیے اپنا دروازہ خود بنانا اور اُسے کھولنا نہیں ہے، کیوں کہ اس سے محبّت اور وفا دونوں داغ دار ہو جائیں گے اور محمّد علی جناح کی صاف ستھری، بےداغ زندگی میں کوئی ایک لمحہ، ایک ایسا مقام نہیں تھا، جب انھوں نے اپنے کردار پہ کوئی دھبّا آنے دیا ہو۔ وہ جو راستہ چُننے جارہے تھے، وہ اُن کا اپنا ہم وار کیا ہوا نہیں تھا۔ یہ دروازہ بہت سوچ سمجھ کر قانون ہی نے کھولا تھا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہندوستانی سماج میں تب بھی اور آج بھی اس راستےکو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین