• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے تعلقات آج کل ایک بار پھر کشیدگی کا شکار ہیں جس کی وجہ پاکستان میں سزائے موت کے منتظر بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ پر ساتھی قیدیوں کے حملے کے بعد اس کی ہلاکت ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے سربجیت کی ہلاکت کے فوراً بعد اس کی لاش بھارت کے حوالے کی۔ سربجیت کی آخری رسومات مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ بھارتی پنجاب میں اس کے آبائی گاؤں میں ادا کی گئیں۔ سربجیت کی لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری رسومات کیلئے لے جایا گیا جہاں ریاستی پولیس فورس نے بگل بجا کر بندوقوں سے اسے سلامی دی۔ اس موقع پر سربجیت کو ”شہید“ کا درجہ دیا گیا، صوبے بھر میں سرکاری سطح پر 3 روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا اور اسے وہ پروٹوکول دیا گیا جو ایک قومی ہیرو کو دیا جاتا ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سربجیت کے اہل خانہ کو ڈیڑھ کروڑ روپے اور اس کی بیٹیوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔
سربجیت کی آخری رسومات میں حکمراں جماعت کانگریس پارٹی، اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور ریاستی حکمراں جماعت اکالی دل کے سینئر رہنماؤں کے علاوہ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس موقع پر سربجیت کی بہن دلبیر کور نے اپنے بھائی کی چتا کو آگ لگائی حالانکہ بھارت میں رسماً خواتین کے بجائے یہ ذمہ داری مرد ادا کرتے ہیں۔ دلبیر کور نے پاکستان کو اپنے بھائی کا قاتل قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ماضی میں مشرف نے واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور آج پاکستانی حکومت نے منموہن سنگھ کے ساتھ وہی کیا ہے۔ دلبیر کور نے کہا کہ اس وقت بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو جانا چاہئے اور پاکستان پر حملہ کیا جانا چاہئے۔ بھارتی پارلیمینٹ نے بھی ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں سربجیت کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی مذمت کی گئی ہے جبکہ 300 سے زائد پارلیمنٹیرینز نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھارت میں جس وقت سربجیت کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھیں عین اُسی وقت مقبوضہ جموں کی چندی گڑھ جیل میں ایک پاکستانی قیدی ثناء اللہ پر سربجیت کے ہی انداز میں جان لیوا حملہ کیا گیا جس سے اُن کے سر پر شدید چوٹیں آئیں اور ان کے دماغ کا کچھ حصہ باہر نکل آیا۔ اطلاعات ہیں کہ ثناء اللہ کی دماغی موت واقع ہوچکی ہے اور انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ حملے میں ملوث قیدی سابق بھارتی فوجی تھا۔ اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ پاکستانی قیدی پر یہ حملہ بھارتی حکومت کی ایماء پر کرایا گیا تاکہ سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ لیا جا سکے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سربجیت سنگھ پر لاہور کی جیل میں ساتھی قیدیوں نے اُس وقت حملہ کیا تھا جب چہل قدمی کے دوران سربجیت نے دوسرے قیدیوں پر یہ انکشاف کیا کہ پاکستانی اور بھارتی حکومت کے درمیان ایک ڈیل کے تحت وہ بہت جلد رہا ہو کر اپنے وطن واپس چلا جائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کچھ ماہ قبل بھی حکومت پاکستان اسے رہا کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی تاہم عوامی دباؤ پر حکومت نے اپنا فیصلہ موخر کر دیا تھا۔ یہ سن کر کہ 14 پاکستانیوں کا قاتل بھارتی دہشت گرد بہت جلد رہا ہو کر بھارت چلا جائے گا ساتھی قیدی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ واضح ہو کہ میں نے اس موضوع پر لکھے گئے اپنے گزشتہ کالم میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سربجیت سنگھ کی موت کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا جائے گا اور سربجیت سنگھ کی موت کا بدلہ بھارت میں قید پاکستانی قیدیوں اور شہریوں سے لیا جائے گا جو کافی حد تک درست ثابت ہوا۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ بھارت میں قائم پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں نے کئی روز گزرنے کے بعد ثناء اللہ کی عیادت کی جبکہ اس کے برعکس سربجیت سنگھ کے زخمی ہونے کے فوری بعد پاکستان میں قائم بھارتی سفارتخانے کے اہلکار لاہور پہنچ گئے تھے۔ پاکستانی سفارتخانے کو چاہئے کہ وہ بھارت سے زخمی پاکستانی قیدی ثناء اللہ کی فوری وطن واپسی اور بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی قیدیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرے۔
بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن اس کی ہلاکت کے بعد بھارت میں غیر معمولی ردعمل سامنے آنے، بھارتی وزیراعظم کی جانب سے اسے بھارت کا ”بہادر لال“ قرار دینے، اس کی لاش کی وصولی کیلئے خصوصی طیارہ پاکستان بھیجنے اور لاش کو سرکاری اعزاز دینے سے گزشتہ 22 سالوں سے بنایا ہوا یہ معمہ کہ ”سربجیت سنگھ ایک معصوم شہری تھا“ حل ہو گیا ہے کیونکہ سربجیت کو دیا جانے والا پروٹوکول اُنہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ملک و قوم کیلئے گراں قدر خدمات انجام دی ہوں اور کسی کاز کیلئے لڑے ہوں یا ملکی دفاع کیلئے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کردی ہو۔ سربجیت کی موت کے بعد یہ راز فاش ہوگیا ہے کہ یقینا سربجیت ضرور کوئی نہ کوئی حکومتی ذمہ داری نبھارہا تھا۔
بھارت ہمیشہ اپنے جاسوسوں کو معصوم شہری قرار دیتا رہا ہے مگر ان کی رہائی کے بعد انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ”معصوم“ بھارتی شہری دراصل ”را“ کے ایجنٹ ہیں۔ ماضی میں پاکستان سے رہائی کے بعد سرجیت سنگھ اور کشمیر سنگھ نے بھی ”را“ کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کیا جبکہ سربجیت سنگھ کی حالیہ مثال بھی دنیا کے سامنے ہے۔ بھارتی جریدے ”ہندوستان ٹائمز“ نے انڈین انٹیلی جنس کے سابق اور موجودہ افسران کے حوالے سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سربجیت سنگھ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا ایک تربیت یافتہ اور تنخواہ دار ایجنٹ تھا جسے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بھیجا گیا تھا جو پاکستان میں خفیہ مشن مکمل کرنے کے بعد بھارت فرار ہوتے وقت گرفتار ہوا۔ ان افسران نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 90ء کی دہائی میں ”را“ ایسے کئی آپریشنز پاکستان میں کررہی تھی۔ کل تک بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے سربجیت سنگھ جیسے جاسوسوں کی ضرورت تھی۔
آج بھارت اپنے مذموم مقاصد کیلئے پاکستانی دہشت گردوں کو استعمال کر رہا ہے۔ آج یہ حقیقت دنیا پر واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کی جیل میں قید بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ نے راتوں رات ایک قیدی سے ”قومی ہیرو“ کا سفر کس طرح سے طے کیا؟
تازہ ترین