• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سید عباس اطہر ایک فرد نہیں ایک سجے سجائے ادارہ کا نام ہے ان کے بچھڑ جانے سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ”دبستان صحافت“ کا سہاگ اجڑ گیا ہے۔ وہ بڑے صحافی۔ اپنی طرز کے منفرد نیوز ایڈیٹر، نامور کالم نگار، اردو پنجابی کے نہایت خوبصورت شاعر تو تھے ہی ایک فکر اور نظریہ کے علمبردار بھی تھے تاہم ان کے نظریات ذاتی تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مارا اور منتخب وزیراعظم بھٹو کو گرفتار کر لیا تو یہ سید عباس اطہر ہی تھے جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کی اور ان عظیم صحافیوں کی قیادت کی جنہوں نے آمریت کے ظلم و جبر کا مقابلہ کیا اور کوڑے کھائے۔
سید عباس اطہر کے بارے میں ”جہاں نظر آئے گولی مار دو“ کا حکم دیا گیا۔ یہ ان صحافیوں کی صف اول میں شامل تھے جنہیں شاہی قلعہ میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں If I am Assassinatedکتاب لکھی۔ اس کتاب کو سمگل کر کے دوبئی پہنچایا۔ یہ کتاب جیل سے باہر کیسے آئی اور ثناء اللہ نامی شخص نے اپنے جسم پر چسپاں کر کے کیسے سمگل کیا اس کا ذکر پھر کبھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار کے جنرل منیجر خواجہ نذیر نے خفیہ طور پر یہ کتاب شائع کر کے تقسیم کر دی۔ اس میں سید عباس اطہر کی مشاورت بھی شامل تھی۔ شاہی قلعہ میں شاہ جی سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کی جاتی رہی۔ جب وہ رہا ہوئے تو لندن جانے کے لئے جہاز میں سوار ہو گئے۔ اس کی مخبری ہوئی اور انہیں جہاز سے اتار لیا گیا لیکن پی آئی اے کے عملے نے رسک لے کر انہیں دوبارہ جہاز میں بٹھا دیا اس طرح شاہ جی نے ایک طویل عرصہ امریکہ میں جلا وطنی میں بسر کیا۔ اس کی درد بھری کہانی وہ ہمیں کبھی کبھی سنایا کرتے تھے۔ وہ نامور صحافی اور کالم نگار تو تھے ہی لیکن صحافت میں ان کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ بہت ہی ذہین باصلاحیت نیوز ایڈیٹر تھے۔ خبر کی ایسی سرخی نکالتے کہ چھوٹی سی خبر ابھر کر زندہ ہو جاتی بلاشبہ اردو صحافت میں تندوتیز سرخیوں کے وہ بانی تھے اس زمانے میں ان کی سرخیوں کی دھوم ہوا کرتی تھی۔ روزنامہ آزاد کے نیوز ایڈیٹر تھے 1970ء کے انتخابات کا دور تھا روز ایک نئی سرخی لے کر اخبار طلوع ہوا کرتا ہے۔ میدان صحافت میں وہ لاہور کے تقریباً تمام بڑے اخبارات سے منسلک رہے اور ایک اپنا اخبار نکالنے کا تجربہ بھی کیا کالم ”کنکریاں“ بہت ہی مقبول ہوا ان کی تحریر میں بڑی روانی اور زبان کی چاشنی ہوتی تھی کہ آج کا قلمکار لفظوں کی اس کاٹ سے محروم ہے۔
میرا ان کا نصف صدی کا ساتھ تھا وہ میرے دوست ہی نہیں استاد بھی تھے میرے ہی نہیں سینکڑوں نوجوانوں کو قلم پکڑنا اور خبر بنانا سکھائی ہے ان میں چند ملک کے نامور صحافی ہے اور آج بھی ہیں۔ میرے سابقہ اخبار کے دنوں میں میرا ان کا دن رات کا ساتھ رہا۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ رات کو نیوز روم سے شاہ جی آواز دیتے کہ قدوائی صاحب لیڈ کی ابھی خبر نہیں ہے۔ میں کہتا کہ شاہ جی! اس وقت میں خبر کہاں سے لاؤں۔ چند منٹ بعد وہ ایک چند سطری خبر لے کر میرے پاس آتے اور کہتے کہ اس خبر کو اگر اس طرح سے بنا دیا جائے اور کسی متعلقہ شخص سے اس کی تصدیق یا تردید کرا لی جائے تو ”اچھی لیڈ“ بند جائے گی اس طرح کی رہنمائی میں خبر کی نوک پلک درست کر دیتا کہ اگلی صبح اس خبر کی دھوم مچ جاتی۔ یہ شاہ جی! کا معمول تھا اور اس طرح مجھے اچھی خبر تلاش کرنے اور بنانے کی تربیت دی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت سے ان کے قریبی تعلقات تھے لیکن دوسری جماعتوں کے رہنما بھی ان کی عزت کرتے تھے۔
ان کا ایک حسن یہ تھا کہ وہ دوستوں کے دوست تھے بلا تفریق ہر ایک کے دکھ درد میں شریک تھے۔ ہر ایک کے کام آتے۔ جو بھی ان تک پہنچ جاتا اس کے کام کے لئے ساتھ چل پڑتے تھے ایک مدت قلم کار کے عنوان سے ایک پروگرام کرتے رہے جو بڑا مقبول ہوا۔ وہ ایک مدت سے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے لندن علاج کرانے گئے وہاں خاصا افاقہ ہوا اور واپس آ کر دفتر جانے لگے اس دوران کئی بار میری ان سے فون پر بات بھی ہوئی کہ اچانک موذی بیماری نے پھر حملہ کر دیا اور اس بیماری نے انہیں چارپائی سے لگا دیا۔ چند روز قبل مولوی سعید اظہر نے اطلاع دی کہ شاہ جی! ہوش میں آ گئے ہیں لوگوں کو پہچانتے ہیں۔ طے ہوا کہ پیر کو چلیں گے۔ کہ اتوار کی رات کے پچھلے پہر وہ اپنی زندگی کا سفر مکمل کر کے واپس چلے گئے۔ منو بھائی کا یہ کہنا بہت خوب ہے کہ شاہ جی! نے ڈیڑھ سو سال کی زندگی گزاری کہ ان کے روز و شب اتنے بھرپور تھے کہ اس کے لئے 75 یا 76 سال کی مدت خاصی کم ہے۔
سید عباس اطہر ایک اچھے انسان، پیارے دوست اور بڑے دل والے صحافی تھے۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے رہنماؤں سے ان کے تعلقات رہے اور ”اقتدار کے برآمدوں“ تک انہیں رسائی حاصل رہی اور آخر میں یہ بات کہ وہ اتنے اچھے شاعر تھے اگر اس پر توجہ دیتے تو بڑے شعراء کے ہم پلہ ہوتے آج کل پیپلز پارٹی کا ایک اشتہار ”بھٹو کی بیٹی آئی ہے“ ان کی ہی نظم ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور لواحقین دوستوں، عزیزوں اور شاگردوں کو صبر دے ۔ (آمین)
تازہ ترین