• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام انتخابات میں اب صرف دو روز باقی ہیں اور 45 لاکھ بیرون ملک پاکستانی اپنے ووٹ کے حق کے استعمال سے محروم کر دیئے گئے مگر ان سخت جان پاکستانیوں کی ووٹ سے محرومی اور مایوسی کے باوجود بھی ابھی تک پاکستان سے لگاؤ اور ان انتخابات کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ آج کل امریکہ وکینیڈا میں آباد ہر پاکستانی لمحہ بہ لمحہ الیکشن کی صورتحال سے بذریعہ ”جیو“ اتنا باخبر ہے جتنا کہ اہل پاکستان ہیں۔ الیکشن کے ویک اینڈ میں گھروں، ریستورانوں میں دوستوں کو اکٹھا کرکے انتخابی نتائج دیکھنے اور تبصروں کے ساتھ کھانوں کے مزے اڑانے کے پروگرام انتہائی مصروف رہنے والے پاکستانی بھی بنا چکے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ واشنگٹن کے دو پاکستانی خالد عمر اور ان کے پاکستانی ساتھی نے پاکستانیوں کیلئے ایک مفت فون ایپلی کیشن ”پاکستان الیکشن 2013ء“ کے نام سے بنا کر ڈاؤن لوڈ کیلئے مفت پیشکش کر دی تاکہ پاکستانی لمحہ بہ لمحہ الیکشن کے نتائج سے باخبر رہیں اور ساتھ ہی ساتھ تمام قومی اور صوبائی حلقوں کے بارے میں ہر طرح کی تجزیئے کیلئے ضروری معلومات و اعدادوشمار وغیرہ بھی فراہم کر دیئے اور اس کو اپنی پاکستانیت کا ایک مظہر قرار دیا۔ یہاں کے پاکستانیوں نے سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے امیدوار اجمل چیمہ کے امریکہ میں رابطے کے نتیجے میں یہاں کے عام پاکستانی خاور بیگ، افضل گلبہار اور تحریک انصاف کے حامیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو اپنے اپنے حلقے میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ کی مہم شروع کر دی تو امریکہ میں پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور جماعت اسلامی کے حامیوں نے بھی پولنگ ختم ہونے تک ایس ایم ایس کا یہی استعمال رکھنے کا کام شروع کر دیا۔ مختصر یہ کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے وہ مایوسی اور محرومی کے باوجود پاکستان اور پاکستانی انتخابات سے پیوستہ بیٹھے ہیں، بہتر ہو گا کہ الیکشن سے قبل ہی یہ بات بھی سامنے آجائے کہ45 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ استعمال کرنے کے حق پر ڈاکہ کس نے اور کیوں ڈالا؟ اس کے محرکات اور مقاصد کیا تھے؟ الیکشن کے بعد اس کا تذکرہ اپنے معنی کھو دیتا۔ میری تازہ معلومات کے مطابق نادرا نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ای ووٹنگ یعنی کمپیوٹر کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا ایک ایسا فول پروف سسٹم تیار کر لیا تھا جس میں نائی کوپ کارڈ پر ووٹر کے انگوٹھے کے نشان کے ذریعے نہ صرف ووٹر کا انتخابی حلقہ، ووٹ کا ریکارڈ اور بیلٹ پیپر تمام تفصیلات کے سامنے آجاتا ہے بلکہ اسی لمحے وہ اپنے پسندیدہ امیدوار پر نشان لگا سکتا ہے اور اس کا ووٹ اس کے انتخابی حلقے میں اس کے امیدوار کے حق میں شمار بھی ہو جاتا ہے۔ اس نظام کا نمونہ استعمال میری معلومات کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی خود دیکھ چکے ہیں اور اس سسٹم کو بنانے والے طارق ملک ان حلقوں سے اپنی ستائش بھی حاصل کر چکے ہیں۔ 11 مئی کو انتخابات میں استعمال ہونے والے ووٹنگ کے نظام کے مقابلے میں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تیار کردہ ای ووٹنگ کا یہ نظام کہیں زیادہ غلط استعمال سے محفوظ اور آٹومیٹک گنتی اور تیز رفتار ووٹنگ کا نظام تھا لیکن پھر بھی اوورسیز پاکستانی 45 لاکھ ووٹرز ووٹنگ سے محروم کر دیئے گئے، کیوں اور کس لئے اور اس کا ذمہ دار کون؟ الیکشن، ووٹرز لسٹ حلقہ بندیاں اور انتخابات سے متعلقہ تمام انتظامات کیلئے مستقل ادارہ الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق استعمال کیلئے دو سال قبل جو فیصلے کئے گئے تھے اس لحاظ سے پچھلے دو سالوں میں الیکشن کمیشن کو اس بارے میں تمام تفصیلات طے کرنے، قواعد و ضوابط بنانے اور عملی انتظامات کرنے کیلئے بڑی مناسب مدت تھی اگر کسی قانون سازی کی ضرورت تھی تو اس کیلئے بھی الیکشن کمیشن کو ہی کام کر کے پارلیمینٹ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کرنا تھا مگر دو سال تک کے عرصے میں اس بارے میں سستی اور غفلت برتی گئی اور اب بالآخر یہ جواز بنایا گیا کہ اب تو پارلیمینٹ کی قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی، منظوری کون دے گا؟ وزارت خارجہ بھی اس سلسلے میں اپنے بیرون ملک سفارت کاروں اور اسٹاف پر ای ووٹنگ اور انتخابات کے حوالے سے اضافی بوجھ، ذمہ داریاں اور اعتراضات و جواب دہی کی اضافی الجھنوں کا بوجھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ مزید اسٹاف کو بیرون ملک سفارت خانوں میں ووٹنگ کیلئے بھجوانے کے مخمصے میں پھنسانا مناسب نہیں تھا لہٰذا وزارت خارجہ نے بھی زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کیلئے عملی اقدام اور رضامندی سے گریز کیا۔ اوورسیز پاکستانیوں والے مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک کی حکومتوں سے ووٹنگ کی اجازت حاصل کرنے کیلئے خطوط کی ہدایات بھی اسلام آباد نے تاخیر سے جاری کیں اور پھر پاکستانی سفارتی مشنوں نے بھی اس تاخیر سے آگے غیرممالک کی حکومتوں سے رابطہ کیا اس کے باوجود الیکشن سے 15 روز پہلے امریکہ وکینیڈا سمیت9 /اہم ممالک نے اوورسیز پاکستانیوں کے ای ووٹنگ کیلئے اجازت دے دی تھی اگر اور کچھ نہیں تو ان 9 ممالک میں ووٹنگ کیلئے ووٹنگ کا نظام غیرممالک کی حکومتوں کی رضامندی، رجسٹرڈ ووٹرز لسٹ اور دیگر تمام انتظامات مکمل تھے۔ حتیٰ کہ نادرا کے چیئرمین طارق ملک کینیڈا میں ای ووٹنگ نظام کا ٹیسٹ بھی خود آکر کر چکے تھے لیکن اس کے ساتھ اسلام آباد سے یہ ہدایات بھی جاری کر دی گئیں کہ 11 مئی کے الیکشن میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹنگ نہیں ہو گی۔ الیکشن سے دس روز قبل اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق پر شب خون مار کر 12/ارب ڈالر سالانہ بھیجنے والے پاکستانیوں کو ان کی پاکستانیت کا صلہ ووٹ کے حق سے محرومی کے ذریعے الیکشن کمیشن کے بعض جوشیلے غصہ ور حکام نے اپنی آسانی کیلئے یوں دیا ہے وزارت خارجہ نے بھی شکر ادا کیا جبکہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تمام آبزرویشن اور اوورسیز پاکستانیوں کے حق میں دیئے گئے ریمارکس وہدایات بھی عمل کرانے میں کام نہ آسکیں۔ عدلیہ کا شکریہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کی حمایت کی لیکن اس کے باوجود پاکستانی معیشت کو 12/ارب ڈالر صرف زرمبادلہ نقد فراہم کرنے اور ہر سال اربوں کی پراپرٹی خریدنے، سفر کرنے اور دیگر مدوں میں اپنی کمائی پاکستان میں خرچ کرنے والے پاکستانیوں کو انتخابی عمل اور ملک میں جمہوریت کے سفر میں شرکت سے محروم کر دیا گیا تاکہ الیکشن کمیشن اور وزرات خارجہ پر اضافی ذمہ داری عائد نہ ہو جائے۔ سیاسی لحاظ سے اوورسیز پاکستانیوں میں ووٹ کے لحاظ سے تحریک انصاف کے عمران خان کا پلہ واضح طور پر بھاری نظر آرہا تھا لہٰذا دیگر سیاسی پارٹیوں کو اوورسیز پاکستانیوں میں وہ دلچسپی نہیں تھی البتہ یہ ایک واضح اور قابل ستائش حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم امریکہ وکینیڈا شاخ نے 4 مئی کو بارہ شہروں میں بیک وقت جو احتجاجی مظاہرے کئے اس میں وہائٹ ہاؤس کے سامنے کئے جانے والے مظاہرے میں کراچی میں دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں کے حق ووٹ کی حمایت میں بھی نعرے ضرور درج تھے ورنہ تحریک انصاف کی عاصمہ باجوہ ہی اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ رجسٹریشن اور حقوق کے بارے میں ٹورنٹو، نیویارک اور دیگر شہروں میں بھاگ دوڑ کرتی دکھائی دیں۔ مختصر یہ کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کرنے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اخلاقاً، قانوناً اور اصولاً 45 لاکھ ووٹروں کی عدم شرکت الیکشن کو غیر شفاف، جانبدار قرار دینے کا معقول جواز ہے۔ ویسے بھی پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی پہلے بھی الیکشن کو یکطرفہ اور اپنے ردعمل سے غیرشفاف قرار دے رہی ہیں، طالبان بھی الیکشن کے خلاف ہیں اب علامہ طاہر القادری بھی اپنے ”مہربانوں“ کی مشاورت اور حکمت کے تحت دھرنا دیکر الیکشن کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں ان کی الیکشن کے بعد کی صورتحال کے بارے میں پیشگوئیوں پر سنجیدہ غور اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ الیکشن کمیشن کے بعض عناصر کے رویّے اور فیصلوں نے اسے فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی کے باوجود اس کے امیج کو متاثر کر دیا ہے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کرنے کے عمل کی داستان انتہائی افسوسناک تفصیل کی حامل ہے اور اس کی تمامتر ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہے کہ انتہائی محفوظ انٹرنیٹ کے ذریعے قابل اعتماد سسٹم ہونے کے باوجود ووٹ کے حق سے محروم کیا گیا۔
تازہ ترین