• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل ٹی وی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان(ECP) کے زیرِاہتمام EPLجس کا فائنل11مئی کو ہے زوروشور سے جاری ہے ۔ہر پانچ منٹ بعد ایک منٹ کا اشتہار چلتا ہے جس کے بعد بَلّا چلتا ہے،تیر چلتاہے،شیرچلتاہے اور ان کے پیچھے پیچھے سائیکل چلتی ہے ۔گاہے بگاہے ترازو والے دائیں بازو سے پھل تولتے اور روشن خیال بائیں بازو سے پتنگ اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہانی خاصی جاندارمگر پلاٹ نہایت سادہ۔جنگل میں ایک شیر ہے جو عرصہ دراز سے جنگل سے نقل مکانی کرکے شہر میں آبسا۔پانچ سال خدمت خلق کی،پیسے کے بجائے نام کمایا،مچھروں سے جنگ لڑی،سبک رفتار بس سروس چلائی مگر مخالفین الٹا اسی کے شکار پر تل گئے اور طرح طرح کے طعنے دینے لگے۔ جدید بس کو جنگلہ بس کا نام دیا اورشیر کی مچھر سے جنگ کو ہتک آمیز نظروں سے دیکھا۔کچھ منچلوں نے تو اس شیر کی نسل کو ہی متنازع بنا کر اسے کم سے کم کاغذی اور زیادہ سے زیادہ سرکس کے شیر کے درجے سے نوازا۔فلم کے کہنہ مشق ہدایتکار نے ناظرین کی دلچسپی کے لیے اس میں بھر پور ایکشن کے علاوہ گانے ،ترانے،مرثیے اورایسا شُستہ مزاح شامل کیا کہ دیکھنے والوں کا ہنستے ہنستے رونا نکل جائے۔ان سیاسی اشتہاروں سے بچے،بڑے اوربوڑھے مردوخواتین سب محظوظ ہورہے ہیں۔بلندوبام وعدوں اور دعووں سے لبریزاس ڈرامے کا عوام دوستی کا راگ ایسا اچھوتا ہے جو سننے والے کو کامیڈی اور سمجھنے والے کو ٹریجڈی لگے۔سید ضمیر جعفری نے کیا خوب کہا :
یہ اچانک سی مروت ، دفعتاً سی دوستی؟
سب ضرورت کے تماشے ،سب غرض کے اشتہار
قارئینِ کرام!ابھی شعر پورالکھا ہی تھا کہ ٹی وی پر علمِ فلکیات کی مدد سے الیکشن کی پیش گوئیوں پر دو خواتین کو ایک مرد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سنا ۔دیکھنے کی طلب ہوئی تو معلوم ہوا کہ دونوں بااعتماد ، خوش شکل اور خوش لباس ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر فلکیات بھی تھیں۔ ان کی پیش گوئیاں اور تجزےئے سنے تو یقین کیجئے کہ خاصی شرمندگی ہوئی۔ ضروری نہیں کہ میں علم فلکیا ت میں یقین رکھوں لیکن جس یقین سے وہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے کو پیش کر رہی تھیں وہ قابل دید تھا۔اتنا یقین تو شایدNASA کے سربراہ کو بھی نہ ہو جس کے کارندے مع سازوسامان زیادہ تروقت فلک ہی میں گزارتے ہیں۔ایک خاتون نے تیر کی حکومت بنتی دیکھی تو دوسری نے تیتربٹیرکی۔البتہ دونوں کا اتفاق تھا کہ الیکشن کے انعقاد کا 60فیصد چانس ہے اور وہ بھی دھکے کے ساتھ کیونکہ مئی کا مہینہ علم فلکیا ت کی رُو سے منحوس ہے جسکی وجہ سے26 جون کو وہ پہلے سے ہی مبارک دن قرار دے چکی تھیں۔کاش یہ تجویز گذشتہ حکومت یا پھر فخرو بھائی کو بر وقت گوش گذارہوجاتی! ہمارا کیا، ہم نے جہاں پانچ سال گزارے ایک آدھ ماہ اور مشقت کر لیتے؟ البتہ مجھے ان کی گفتگو میں ایک بات پر بہت خوشی ہوئی۔فرمانے لگیں کہ جون2014ء کے بعد پاکستان کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اس میں جوپٹیر (Jupiter)کی حکمرانی ہوگی۔خوشی اپنی جگہ مگر حیرانی نہیں جاتی کہ جو پٹیر نامی نہ تو کوئی سیاسی جماعت ہے ،نہ ہی سیاسی قائداورنہ ہی یہ نام کسی فوجی سربراہ کا ہے۔ توپھر عوام کی حکمرانی کہاں گئی؟قارئینِ کرام! بلاشبہ الیکشن کا زور چاہے جلسے جلوسوں میں ہو یا فقط میڈیا میں،ہے یہ ہمارے لیے خوش آئندکیونکہ ہماری بقاء اسی میں ہے۔ہمارے اصل مسئلے دو ہیں ایک تو ہمارے سیاستدان اتنا عرصہ کڑی آزمائشوں اور ٹھوکروں کے بعد بھی اپنی مخلصی ،جمہوری سوچ اور مثبت رویّے میں وہ پختگی اور شائستگی نہ پیداکر سکے جس کی ان سے توقع تھی۔دوسرا مسئلہ ہمارا ذاتی ہے یعنی ہم بحیثیت عوام ابھی تک غلامی کا طوق اپنے گلے میں سجائے ذات پات، برادری، علاقائی سوچ، گروہ بندی، مسلکوں، دوستیوں،ذاتی رنجشوں اورذاتی مفادات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم اس حد تک بے بس اور لاچارہوچکے ہیں کہ ہمیں کوئی نہ کوئی ،کہیں نہ کہیں اپنے خلاف سازشوں میں مصروف نظر آتا ہے اور اگر نظر نہیں آتا تو وہ ہمارا اپناکردار اور عمل!کیا یہ ہماری پستہ حالی نہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو الیکشن سے ٹھیک گیارہ روزپہلے قوم کو یقین دلانا پڑا کہ الیکشن کا انعقاد ہر صورت بر وقت ہوگا۔ کاش نگران وزیرِاعظم اپنی گو ناں گوں مصروفیات سے چند قیمتی لمحے نکال کر اپناپہلا اورغالباًآخری عزیز ہم وطنی خطاب تین چار روز پہلے کر لیتے تو کیانی صاحب کو شایدیہ زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔آخر میں وزیرِاعظم نے بڑے پرامید اورپر اعتماد لہجے میں امن وامان پر بلائے جانے والے اجلاس اوررحمان ملک دوئم کو دی گئی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو پیغام دیا کہ امن وامان کی صورت حال کو یقینی بنایاجائیگا تاکہ الیکشن بروقت اور شفاف ہوسکیں۔اس قلیل عرصے میں اس وعدے کا پورا ہونا کہاں تک ممکن ہے؟ ایک ہی امید ہے کہ اگرطالبان اس گرمی کے موسم میں غیرشرعی بسنت منانا چھوڑ دیں تو شاید حالات بہتر ہو جائیں اور تمام سازشیں خودہی دم توڑ دیں۔قارئینِ کرام! ہماری بدنصیبی کہ گذشتہ65سالوں میں ہمارے قائدین نے سیاست کو ایک ناپسندیدہ اور کوئلے کے کاروبار کی مانندسمجھااور اپنی سوچ اورعمل سے بارباراسکی تصدیق کی جسکے نتیجے میں عوام کی کثیر تعدادنے عدم دلچسپی کا شکارہوکر انتخابات کے عمل سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ایک خلا پیداہواجس کومفاد پرست اور پیشہ ور سیاستدانوں اوران کے حواریوں نے پرکیااور پورے نظام کواپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لیا۔ اسی کمزوری نے ہمیشہ مہم جوئی کو دعوت دی۔آنے والا11مئی کادن امیدنو ہے۔اس دن انشاء اللہ اس ملک اور قوم کی تقدیر بدلے گی کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جس پر تمام ووٹرز اپنے حق رائے دہی کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں ۔اگر ملائشیا کے حالیہ انتخابات میں 80فیصد ووٹ ڈالے جاسکتے ہیں تو ہم کیوں نہ اس سے آگے جائیں؟ یہ با لکل ممکن ہے۔ آخر ہمیں ایسا کرنے سے روکتاکون ہے ؟ حقیقتاً ہمیں سیاستدان نہیں چاہیے اورنہ ہی کوئی تجربہ کارکیونکہ ہم ان دونوں کے ہاتھوں بہت بھگت چکے ہیں۔ اگر چاہیے تو پکا،سَچا،سُچا،مخلص اورنڈر فقط ایک عدد لیڈر جو اس قوم کی ڈوبتی ہوئی نَیّا کو پار لگا سکے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امیدوار کی بجائے ،پارٹی کے اس قائد کو ووٹ دیں جس پر ہمارا دل گواہی دے کہ وہ ہمیں دھوکا نہیں دے گا ۔اوراگر ہم یہ کر بیٹھے تو پھر قوم کی بلّے بلّے۔
تازہ ترین