• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں جنگ اخبار میں شائع ہونے والی عدلیہ کے متعلق دو خبریں بہت اہمیت کی حامل ہیں جن پر محترم چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو نوٹس لینا چاہیے۔

ایک خبر کا تعلق تو پنجاب کی ماتحت عدلیہ کے ججوں کی وکلاء حضرات کے ہاتھوں ہراسگی سے ہے جبکہ دوسری خبر کا تعلق عدالتوں کی طرف سے جاری کیے جانے والے اُن سٹے آرڈرز (حکم امتناہی) سے ہے جس کی وجہ سے ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانیوں کی زمینوں اور دوسری پراپرٹیز سالہا سال مقدمات میں الجھی رہتی ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ قبضہ مافیا یا لینڈ مافیا کو ہوتا ہے۔

 یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ذکر عمران خان نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کیا اور اپنے بہنوئی کے پلاٹ پر مبینہ مافیا کے قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے خود کو بحیثیت وزیر اعظم بھی بے بس پایا۔ جب میری وزیر اعظم کے بہنوئی سے بات ہوئی تو جہاں وہ پولیس، محکمہ مال اور پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی کرپشن سے نالاں نظر آئے تو وہاں اُن کی ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ عدالتوں کی طرف سے دیے جانے والے سٹے آرڈرز سے قبضہ مافیا بہت فائدہ اٹھاتا ہے۔

اگر حکومت کو پولیس، محکمہ مال اور ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کو کرپشن فری بنانے کی ضرورت ہے تو عدلیہ کو سٹے آرڈرز کی پالیسی پر ضرور غور کرنا چاہیے کیوں کہ اکثر ان سٹے آرڈرز کا فائدہ ظالم اٹھاتا ہے اور نقصان مظلوم کا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ میں نے بھی سی ڈی اے کا کمرشل ریٹس پر پارک اینکلیو میں 2011 میں ایک پلاٹ خریدا جو 2013 میں مجھے ملنا چاہیے تھا لیکن نو سال گزرنے کے بعد آج بھی سی ڈی اے والے کہتے ہیں کہ سٹے آرڈر ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

اربوں روپیوں کو اپنی جیب میں ڈال کر سی ڈی اے ساری ذمہ داری عدلیہ پر ڈال دیتی ہے۔ پارک انکلیو ٹو میں تو ایک بھی پلاٹ کا قبضہ نہیں دیا گیا جبکہ حال ہی میں سی ڈی اے نے پارک اینکلیو تھری پروجیکٹ بھی شروع کر کے عوام سے اربوں روپیے بٹور لیے لیکن کوئی خبر نہیں کہ اتنے مہنگے پلاٹ بیچ تو دیے لیکن خریدنے والے جب قبضہ لینے کی بات کرتے ہیں تو کہہ دیا جاتا ہے کہ سٹے آرڈر ہے۔

اگر زمین کے تنازعہ تھے تو سی ڈی اے، جو حکومت کا ادارہ ہے، نے کیوں عوام سے دسیوں ارب لیے اور کیوں پلاٹ بیچے جب زمین پر اُس کا قبضہ ہی نہیں تھا۔ اس معاملہ پر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کو نوٹس لینا چاہیے۔

دوسرا معاملہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ احمد کے اُس کھلے خط کا ہے جو اُنہوں نے حال ہی میں چیف آف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو لکھا جس میں اس خاتوں جج نے لکھا کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو وکلاء کے ہاتھوںجس قسم کی ذلت اور ہراسگی کا سامنا ہے اُس کو دیکھتے ہوے وہ سوچتی ہیں کہ عدلیہ کا حصہ بننے کی بجائے بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے گائوں میں چوپائے پالتیں اور اُپلے تھونپتیں؛ کیونکہ عدلیہ کا حصہ بننے کی وجہ سے انہیں ’’نام نہاد‘‘ وکلاء کی گندی گالیاں اور توہین برداشت کرنا پڑتی ہے۔

پنجاب میں ماتحت عدالتوں کے ججوں بشمول خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے مایوس اس خاتون جج نے یہ تک کہا ہے کہ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے خودکشی کر لیتیں کیونکہ جج کی حیثیت سے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو روزانہ کی بنیاد پر گالیوں، توہین اور ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان کے سینئرز نے ضلعی عدلیہ کے ججوں کو اس توہین سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اگر مجھے عدالت میں خاتون جج کی حیثیت سے نام نہاد وکلاء سے توہین اور گندی گالیاں برداشت کرنا ہیں تو میرے لیے بہتر تھا کہ میں اپنی زندگی کے پچیس سال اعلیٰ تعلیم کے حصول میں لگانے کی بجائے عام پاکستانی لڑکیوں کی طرح بیس سال کی عمر میں شادی کر لیتی اور اپنے والدین کا قیمتی وقت اور پیسہ پندرہ سال تک اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول پر برباد نہ کرتی۔

انہوں نے کہا کہ اس عظیم پیشے کو غیر پیشہ ور افراد اور کالی بھیڑوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔وکلاء کے عدالتوں اور پریزائڈنگ افسر کی موجودگی میں عام عوام، پولیس والوں پر زبانی و جسمانی حملے معمول بن چکے ہیں، یہ سب کچھ اعلی عدلیہ کے سربراہ جج حضرات کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔

بالکل درست بات ہے کہ ججوں کو عزت ملنی چاہیے، اُنہیں مارنے، گالیاں دینے، ہراساں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میری عدلیہ سے بھی درخواست کہ عوام کو جلد انصاف مہیا کرے، کیسوں کو سالوں دہائیوں تک مت لٹکائیں، سٹے آرڈرز کی پالیسی پر غور کریں کیوں کہ یہ عدالتی حکم نامہ اکثر ظالم اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔

انصاف ملنا اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ عدالتوں سے مایوس مظلوم کی طرف سے خودکشی کے واقعات بھی یہاں ہو چکے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ نہ جج خودکشی کے بارے میں سوچیں اور نہ ہی عدالتی نظام سے مایوس عوام۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین