• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرد ہو یا قوم جو خود کو تیس مار خاں یا میاں مٹھو سمجھتا ہے، دنیا میں ہولا گردانا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں اصلاح احوال کیلئے خود احتسابی اور حقیقت پسندی سے آگے کوئی نسخہ کیمیا نہیں ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ جس کو پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہا ہے اور جسے سننا چاہیے وہ بول رہا ہے، خودنمائی و خود ستائی ہماری ہڈیوں میں گھسی ہوئی ہے اوپر بیٹھے شخص سے لے کر درجہ چہارم کے ملازم تک سب شیخی و تعلی سے لتھڑے پڑے ہیں۔مجھے کسی چیز کی کمی نہ تھی میرے پاس اتنا کچھ تھا کہ میں آرام سے عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتا تھا ،میں یہ تھا میں وہ تھا ،میں ،میں ،میں۔۔۔۔ بھلے مانس کیا آپ کے سامعین سارے کے سارے بیوقوف ہیں؟ کیا کسی کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ حکمرانی یا اقتدار کے حصول کے لیے لوگ کچھ بھی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس نے میکاولی کی ’’دی پرنس‘‘ کا مطالعہ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اس کی یہ جبلی ہوس، تمام اخلاقی و انسانی تقاضے بھلا دیتی ہے۔ اس کی بدترین مثال ہمیں لچھے دار تقاریر کرنے والے ہوس اقتدار کے مارے ایڈولف ہٹلر کی زندگی اور پچیس سالہ جدوجہد کے مطالعہ سے مل جاتی ہے جس نے جرمن قوم کی عظمت کے گیت گاتے ہوئےجرمنوں کو کیسے کیسے سہانے سپنے دکھائے ، اپنے سیاسی مخالفین پر ہر نوع کے گھٹیا الزامات لگائے اور پھر جرمن قوم کو مفلسی و نفرت وبربادی کی دلدل میں پھینک کر غائب ہو گیا۔ ایک اچیومنٹ البتہ ضرور ہوئی اس ’’عظیم‘‘ لیڈرکے سینے میں جرمنی کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچنے اور اس پر براجمان رہنے کی حسرت یا ہوس حکمرانی ضرور پوری ہو گئی تھی۔ دنیا میں صرف ایک ہٹلر نہیں آیا ۔ ہر دورمیں اس ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے اور اپنی اپنی اقوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ ہم مسلمان بھی ماشاء اللہ اس فیلڈ میں بانجھ ہیں نہ کسی قوم سے پیچھے، ہمارے ہاں ایک شخص گزرا ہے۔ حجاج بن یوسف جس نے سندھ فتح کرنے کیلئے اپنے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو ہندوستان بھیجا تھا۔ بظاہر یہ شخص اتنا نیک حکمران تھا کہ قرآنی حروف پر اعراب لگوانا اس کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا ،غیر عرب اقوام کیلئے اس نے قرآن کی قرأت ممکن بنا دی۔ خانہ کعبہ کی ازسر نوع تعمیر بھی اس کا بہت بڑا کریڈٹ ہے لیکن اس نے اصل طاقتوروں کی کٹھ پتلی بن کر بہت خون خرابہ بھی کیا۔

درویش کی نظروں میں مسلم اقوام کا روز اول سے المیہ یہ رہا ہے کہ ان کے پاس کوئی پائیدار و مستحکم سیاسی نظام نہیں تھا ’’وامر ھم شوریٰ بینھم ‘‘کی تلقین ضرور موجود تھی مگر اس نوع کی مشاورت بدترین آمریت یا بادشاہت میں بھی کی جاتی رہی ہے۔ مسلم خلیفہ کو امراء کی مشاورت مسترد کرنے کا اختیار پوری 14 صدیوں کے ہر دورمیں حاصل رہا ہے۔ آج بھی جہاں اس نوع کی حکومتیں یا بادشاہتیں قائم ہیں وہاں مشاورت باضابطہ منعقد ہوتی ہے مگر اس کی بندش لازم خیال نہیں کی جاتی ہے۔ عصر حاضر کے بدلتے تقاضوں کی مناسبت سے لازم ہے کہ مسلم اقوام میں اس حوالے سے کھلے مذاکرے و مباحثے منعقد کروائے جائیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان اقوام کی صدیوں پر محیط طویل تاریخ میں کبھی جمہوریت پنپ سکی اور نہ پرامن انتقال اقتدار کی روایت جڑ پکڑ سکی؟ مگر افسوس یہاں آزادی اظہار مفقود ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی یہ مظلوم اور بدنصیب اقوام جبر کے کسی نہ کسی مرئی و غیر مرئی شکنجے میں جکڑی ہوئی ہیں۔ درویش کی تمنا و حسرت ہے کہ دنیا کی دیگر مہذب جمہوری اقوام کی طرح ہماری مسلم اقوام بھی اقوام عالم میں باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے اپنے عوام اور ان کی اراء کو عزت و حرمت بخشیں منتخب پارلیمنٹ کو آئین و قانون کی ماں تسلیم کرتے ہوئے اسے نہ صرف مائوں جیسا تقدس بخشا جائے بلکہ اصل مقتدر و بالا دست ادارے کی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے دیگر تمام عسکری و سویلین ادارے اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو جائیں۔ یہ آئیڈیل صورتحال تب تک ممکن نہیں ہے جب تک ہر مسلم سماج میں حریت فکر اور آزادی اظہار کو انسانیت کی اعلیٰ ترین قدر تسلیم کرتے ہوئے اس کی بالفعل توقیر نہیں کی جاتی اور عظمت اسلامی کے ابدی اصول پر ایمان نہیں لایا جاتا۔

تازہ ترین