• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضیا الحق کے اقتدارکاسورج سوا نیزے پر تھا، جنرل اختر عبدالرحمٰن آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے بدترین آمریت کے چہرے پر جمہوریت کی ملمع کاری کی جارہی تھی۔راولپنڈی میونسپل کارپوریشن سے کونسلر کی نشست پر الیکشن لڑنے کے خواہشمند ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے تو اس نے آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کرنل سید ارشاد ترمذی سے رابطہ کیا ۔یہ وہی ارشاد ترمذی ہیں جو’’ پروفائل آف انٹیلی جنس ‘‘نامی کتاب کے مصنف ہیں۔کرنل ارشاد ترمذی نے اس امیدوار کو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمان سے ملوایا ،انہوں نے جنرل ضیا الحق سے بات کرنے کا وعدہ کیا اور پھر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاالحق کی اجازت سے مقررہ تاریخ گزر جانے کے باوجود اس امیدوار کے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے۔اس امیدوار کا نام شیخ رشید ہے جو ہر سیاستدان کو جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔اور یہ واقعہ شیخ رشید نے حال ہی میں شائع ہونے والی خود نوشت ’’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ میں بذات خود بیان کیا ہے۔

شیخ رشید کو پیدائشی سیاستدان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔انہوں نے ایوب خان کے زمانے میں طالب علم کی حیثیت سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔بقول انکے ،وہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں دریاں بچھاتے رہے اور کرائے پر سائیکل لیکر اس پر فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین لٹکائے پھرتے تھے۔اسکول کے زمانے میں ہی پہلی بار گرفتار ہوئے ۔راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج میں داخلے کے بعدزندگی کا پہلا الیکشن لڑا اور کالج کے نائب صدر منتخب ہوگئے۔بعد ازاں گورڈن کالج میں داخلہ لیا تو طلبہ سیاست کا سلسلہ جاری رہا۔کالج کی صدارت کا مقابلہ موجودہ سینیٹرپرویز رشید سے جیتا ۔پرویز رشید نے ہارنے کے بعد شیخ رشید کو مبارکباد دی اور کھانا کھلایا ،شیخ رشید لکھتے ہیں کہ اتنے اچھے دل کا خوبصورت سیاسی حریف مجھے ساری زندگی پھر نہیں ملا۔

ایوب خان کو طلبہ تحریک کے نتیجے میں جانا پڑا تو جنرل یحییٰ خان کی شکل میں ایک تازہ دم ڈکٹیٹر نے اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل یحییٰ خان بھی سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ کر رخصت ہوگئے ۔شیخ رشید گورڈن کالج کے طالب علم رہنما تھے ۔4جولائی کو امریکی یوم آزادی کے موقع پر سفارتخانے نے مدعو کیا ،لکھتے ہیں کہ سائیکل پر امریکن ایمبیسی پہنچے ،سکیورٹی افسر نے روک کر پوچھا؟کیسے آئے ہو؟کہا انہیں دعوت نامہ دیکر بلوایا گیا ہے۔خفیہ ادارے کے افسر نے دستیاب فہرست دیکھی تو اس میں نام موجود تھا،تب داخلے کی اجازت ملی ۔شیخ رشید اندر داخل ہوئے تو ایک جانب ولی خان اور مولانا نورانی تودوسری طرف وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بیٹھےتھے۔بھٹو شیخ رشید کو دیکھتے ہی پکارے’’قومی بدمعاش‘‘تم کیا سمجھتے ہو ، ایوب خان کو تم نے اُتارا ہے یا بھٹو نے اُتارا ہے؟نہیں‘ ایوب خان کو گوہر ایوب اور اختر ایوب (جنرل ایوب کے بیٹوں ) نے اُتارا ہے۔

شیخ رشید جنہیں بھٹو نے ’’قومی بدمعاش ‘‘کہہ کر پکارا، جنرل اختر عبدالرحمٰن نے انہیں ’’رومیل آف پالیٹکس ‘‘کا لقب دیا۔شیخ رشید لکھتے ہیں کہ جب کاغذات نامزدگی جمع کروا رہے تھے تو فیس جمع کروانے کیلئے پانچ ہزار روپے نہیں تھے، انہوں نے چندہ کرکے یہ پیسے پورے کئے،عدالت میں موجود ایک وکیل نے سات یا آٹھ سو روپے اپنی جیب سے اُدھار دیئے تب جاکر پیسے پورے ہوئے۔شیخ رشید جو جی ایچ کیو کے بزعم خود ترجمان سمجھے جاتے ہیں ، اپنی کتاب میں اعتراف کرتے ہیں کہ یوں تو کوئی بھی آرمی چیف سیاست سے دور نہیں رہا مگر جنرل اسلم بیگ اور جنرل آصف نواز دونوں ہی اقتدار پر قبضہ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ شیخ رشید جو کسی بھی سیاستدان کی جرنیلوں پر تنقید سے بھڑک اُٹھتے ہیں ،انہوں نے مسلم لیگ لاہور کے دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو ’’فوجی پنڈت ‘‘کہہ دیا تھا تو اس معاملے کو بہت اچھالا گیا اور بقول ان کے اگر چوہدری شجاعت ساتھ نہ دیتے تو نوبت استعفے تک آچکی تھی۔

شیخ رشید جو آجکل نوازشریف کو غدار ،مودی کا یار اور نہ جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں اور ان کے مزاحمتی بیانیےکے شدید ناقد ہیں،اپنی کتاب میں وہ نہ صرف نوازشریف کے موقف کی تائید کرتے ہیں بلکہ جابجا ان کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں۔ کتاب کے صفحہ نمبر 168پر لکھتے ہیں کہ نوازشریف کو اپنے تینوں ادوار میں تینوں آرمی چیف کا وہ تعاون حاصل نہیں تھا جو ہونا چاہئے تھا۔اس سے پہلے صفحہ نمبر 163پر انہوں نے لکھا کہ نوازشریف پرخلوص اور ٹھنڈی سوچ اور دوسروں کا احترام کرنے والے انسان ہیں۔اگلے صفحےکا یہ جملہ قابل غور ہے کہ نوازشریف اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کچھ کر گزرنا چاہتا تھا،ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتا تھالیکن دو تہائی اکثریت بھی اسے اقتدار سے ہٹانے کا باعث بنی۔صفحہ نمبر171پر بیان کیا گیا ہے کہ نواز شریف ایک بہت ہی شریف انسان ہیں جو منہ بھر کر کسی کوبھی انکار نہیں کر سکتے۔

شیخ رشید کے مطابق جب صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کردی اور فوج آگئی تو نوازشریف کاصبر و سکون دیدنی تھا۔ صفحہ نمبر 176پر لکھتے ہیں کہ ان کے حوصلے بلند تھے ۔نوازشریف کا پراعتماد اور نورانی چہرہ مجھے اس روز جیسا نظر آیا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ایسا اعتماد میں نے بہت کم لیڈروں میں دیکھا ہے ۔ویسے بھی میں نے نوازشریف کو سخت پریشان کن حالات میں گھبراتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا ۔

تازہ ترین