• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

برادرِ مکرم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی 2 نومبر کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور تب سے تعزیت کرنے والوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ یہ اِس لیے ہے کہ اُن کی انفرادی اور اِجتماعی کاوشوں سے لاکھوں افراد کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اُن کا اِسی مہینے میں انتقال ہوا جس مہینے میں ساٹھ سال پہلے ماہنامہ اُردو ڈَائجسٹ کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا جس نے اُردو زَبان اَور صحافت میں نئی جہتیں متعارف کرائی تھیں اور شائستگی، متانت اور پاکیزگی کا ایک اعلیٰ معیار قائم کیا تھا۔ ہمارا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا، تو سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا حصول تھا۔ بڑے بھائی جناب گل حسن کی رہنمائی میں ہم دونوں بھائیوں کو محکمۂ انہار میں ملازمت مل گئی، تو والدہ صاحبہ نے تلقین فرمائی کہ اپنے پیٹ کے علاوہ غریبوں اور حاجت مندوں کا بھی خیال رکھنا۔ ہم دونوں بھائی ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر ادیب فاضل کا امتحان دے کر گریجویشن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اعجاز صاحب علومِ اسلامیہ میں ماسٹرز کرنے کے بعد سرکاری ملازمت چھوڑ کر جماعتِ اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں ڈسپیچر کے طور پر ملازم ہو گئے اور ترقی کرتے کرتے چیف رپورٹر بن گئے۔ 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک اٹھی جس میں جماعتِ اسلامی نے حصّہ نہیں لیا، مگر ’’مسئلہ قادیانی‘‘ لکھنے پر فوجی عدالت نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنا دی اور تسنیم کے ایڈیٹر ملک نصراللہ خاں عزیز گرفتار کر لیے گئے۔ جس روز لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا، وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ نے پریس کانفرنس کی۔ اعجاز صاحب اُس میں شریک ہوئے اور وَزیرِاعلیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی سیاسی خودکشی کے وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں، آئندہ آپ کا قومی سیاست میں کوئی قابلِ ذکر کردار نہیں ہو گا۔ اِس پر سناٹا چھا گیا اور آنے والے حالات نے اُن کی سیاسی بصیرت پر مہر ثبت کر دی۔ ملک ظفراللہ خاں جو اُن دِنوں اخبارات کے انتظامی معاملات دیکھ رہے تھے، وہ ایم اے میں ایک دوسرے کے ہم جماعت بھی تھے، چنانچہ اُن سے آزمائش کی اِس گھڑی میں رشتے مزید مستحکم ہو گئے۔

1954میں اعجاز صاحب نے ایک محّیرالعقول تعلیمی کارنامہ سرانجام دیا۔ اُنہوں نے بیک وقت ایجوکیشنل ٹریننگ کالج لاہور میں بی ایڈ کیلئے اور پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے تاریخ کیلئے داخلہ لے لیا اور ایک ہی سال میں دونوں امتحانات ایسی اعلیٰ پوزیشن میں پاس کیے کہ اُنہیں جرمن حکومت نے ڈاکٹریٹ کیلئے وظیفے کی پیشکش کر دی۔ یہ پورے خاندان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی، مگر یورپ کے موسم کے مطابق ملبوسات خریدنے کی مالی سکت نہیں تھی۔ اِس موقع پر جناب رانا نذر الرحمٰن نے اُن کی اعانت کی، اِس لیے وہ ہمیشہ اُنہیں اپنا محسن کہہ کر پکارتے تھے۔ اعجاز صاحب نے جرمن زبان میں حضرت عمرؓ کے مالیاتی نظام پر مقالہ لکھا جس پر اُنہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی۔ وہ 1958کے آخر میں پاکستان آئے، تو جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگ چکا تھا۔ مَیں اُس وقت ایم اے علم السیاست کے فائنل ایئر میں تھا۔ 1959میں چھ پرچوں میں امتحان دینا تھا۔ دوسرے پرچے کا تعلق دنیا کے دساتیر سے تھا اور اِس میں پاس ہونا لازمی تھا۔ ایوب خان نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھا کہ آئندہ صدارتی نظام پر مبنی دستور نافذ کیا جائے گا۔ امتحان گاہ میں دوسرے پرچے کے سوال دیکھے، تو پہلا سوال یہ تھا کہ آپ صدارتی اور پارلیمانی نظام میں سے کسے پاکستان کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، دلائل سے واضح کیجیے۔ دوسرے سوالات بھی کچھ اِسی نوعیت کے تھے۔ اِس ایک سوال کے جواب پر میرے مستقبل کا دارومدار تھا۔ مَیں یونیورسٹی اِس حسین خواب کے ساتھ پہنچا تھا کہ تعلیمی شعبے میں کوئی مقام پیدا کروں گا، مَیں نے سوچا اگر مَیں پارلیمانی نظام کے حق میں لکھتا ہوں، تو مَیں اِس لازمی پرچے میں یقیناً فیل ہو جاؤں گا۔ چند لمحوں کی کشمکش کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری والدہ کہہ رہی ہوں کہ ضمیر کی آواز کا ساتھ دو۔ مَیں نے یکسوئی کے ساتھ لکھا کہ جغرافیے اور تاریخ کے اعتبار سے پارلیمانی نظام پاکستان کے لیے سب سے موزوں ہے۔ مَیں نے اُس وقت شکرانے کے نفل پڑھے، جب مَیں غیرمتوقع طور پر یونیورسٹی میں اوّل آیا ۔

امتحانات ختم ہوتے ہی ہمارا خاندان رحمٰن پورہ سے سمن آباد منتقل ہو گیا جہاں بھائی اعجاز نے لاہور مسلم کالج کے نام سے ٹیوشن سنٹر قائم کیا۔ ہم دونوں بھائیوں نے طلبہ اور طالبات کو اچھی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارا کالج دن بہ دن ترقی کر رہا تھا کہ 1960ء کے وسط میں ملک ظفراللہ خان ملنے آئے اور ساتھ ہی رِیڈرز ڈَائجسٹ کے سائز میں اُردو ڈَائجسٹ نکالنے کا منصوبہ بھی لائے۔ مارشل لا میں روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور سہ روزہ ’’کوثر‘‘ بند ہو چکے تھے۔ اُن کے منصوبے پر کئی ماہ غوروخوض ہوتا رہا اور آخرکار اِس کے اجرا کا فیصلہ ہوا۔ ادارت کی ذمےداری مجھ پر آن پڑی۔ اعجاز بھائی کی قیادت میں اُردو ڈَائجسٹ عوام و خواص میں بہت مقبول ہوا۔ اِس نے ساٹھ برسوں کے دوران چار نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے جو آج بھی جاری ہے۔ سمن آباد میں اُردو ڈَائجسٹ کا دفتر ایک تربیت گاہ اور مورچے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا جہاں سے اسلام اور پاکستان کے نظریات کی حفاظت کی جنگ لڑی جاتی تھی اور نوجوانوں کو اعلیٰ معیار کی صحافت کے آداب سکھائے جاتے تھے۔ اِسی ادارے کے تحت جناب مجیب الرحمٰن شامی کی ادارت میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ جاری ہوا جس نے حیرت انگیز سیاسی معرکے سر کیے اور صحافت میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا زرخیز اور تخلیقی ذہن ادارہ سازی کے عمل میں مصروف رہا۔ اِسی مقام سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز نے جنم لیا۔ یہیں سے پاکستان کے پھلوں اور سبزیوں کو دنیا میں متعارف کرانے کا سلسلہ جاری ہوا۔ اِسی مورچے سے کاروانِ علم فاؤنڈیشن کی تشکیل عمل میں آئی جس کے ذریعے ہزاروں طلبہ اور طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ نابیناؤں کو بھی مالی اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔ قومی زندگی میں خاموش انقلاب لانے والے اِن اداروں کی داستان بڑی لائقِ تحسین ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین