• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارےحکمرانوں اور سیاست دانوں کو اب بھی اندازہ نہیں ہو رہا کہ عوام کس طرح اذیت میں مبتلا ہیں۔ ناقابلِ یقین اور ناقابلِ برداشت مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ سرکاری دعوئوں،بیانات اور اعلانات کے باوجود مہنگائی کا گراف نیچے نہیں آ رہا ۔عملی طور پر مہنگائی پر قابو پانے کے لئے سوائے چند سہولت بازاروں کے اور کچھ نہیں کیا گیا۔ عوام یقین کر لیں کہ ان کے مسائل کے حل کیلئے ابھی حکمرانوں کے پاس نہ وقت ہے اورنہ فرصت۔ سارے وزراء اور مشیران بہت مصروف ہیں۔ وزیر اعظم نے اب جلسوں پر پابندی لگا دی ہے لیکن مختلف ٹی وی چینلز پر اپوزیشن کی ’’خبر‘‘لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ جلسوں پر پابندی بھی تب لگائی گئی جب گلگت بلتستان کا معرکہ سر کر لیا گیا۔ ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز ویسے بھی وزرا ء اور مشیران کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تقریباً سب سیاست دانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر آپس میں لڑتے بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے ہیں ۔یوں یہ ٹاک شوز سیاست دانوں کے لئے مشہوری کے ساتھ تفریح کا بہترین ذریعہ ہیں۔آپ ایک ہفتہ مسلسل یہ ٹاک شوز ملاحظہ کریں ،آپ یقیناً میرے ساتھ اتفاق کر یں گے۔ عوام کے لئے ٹی وی ٹاک شوز میں اب دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے بلکہ اکثریت ان ٹاک شوز کو دیکھنا وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔ایک ہفتہ مسلسل ٹی وی ٹاک شوز اور تجزیئے دیکھ لینے کے بعد آپ مان جائیں گے کہ واقعی عام آدمی کی تو بات ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی اپوزیشن کا نمائندہ عام آدمی کی بات کر بھی لے تو وہ صرف حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے عہدیدار کو نادم کرنے کیلئے یا موجودہ حکمرانوں کو ناکام و نااہل ثابت کرنے کیلئے۔ جبکہ حکمران جماعت کا نمائندہ عوامی مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو قرار دیتا ہے۔

یوں وقتِ مقررہ پورا ہونے پر سب ہنسی خوشی اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ عوام رُلتے ہی رہتے ہیں۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن، سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام کس کھیت کی مولی کہ ان کے فضول مطالبات اور ناقابلِ حل مسائل پر وقت ضائع کیا جائے۔ یہ سلسلہ جمہوریت کے آغاز سے شروع ہوا اورجب تک یہ ’’جمہوری‘‘نظام چلے گا، یہ سلسلہ بھی یوں ہی چلتا رہے گا۔عوام کی اہمیت صرف چند دن کیلئے ہوتی ہے جب انتخابات کا ہنگامہ برپا اور میلہ لگا ہوتا ہے۔ جب عوام سے دلکش اور خوشنما وعدوں کے ذریعے ووٹ کا ڈنک نکالا جاتا ہےاور ووٹر بے اثر ہو جاتا ہے پھر تو کون تے میں کون؟ جہاں تک ان دلفریب نعروں اور دعوئوں کا تعلق ہے تو وہ بھی رات گئی بات گئی والی بات ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ کس طرح گلگت بلتستان میں یہی کچھ ہوا۔ جو کبھی سوات سے آگے نہیں گیا تھا، اس نے گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈالے اور وہاں کے عوام کے ساتھ ہر ایک کو ناقابلِ یقین عشق ہو گیا۔ وہاں کے عوام تب ’’غیور‘’ اور ’’دانشمند‘‘بھی بن گئے اور یہ سب کچھ یکدم ہو گیا۔ اب کچھ ہی دنوں بعد گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے یہ دیوانے عاشق دور بین میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ عوام کے ساتھ سیاست دانوں کے یہ ڈرامے یوں ہی چلتے ہیں بس ’’جمہوریت‘‘ زندہ باد رہے۔جہاں تک حکمرانوں کے اعلانات کا تعلق ہے تو کوئی بھی حکمران ہو، اس کے لئے سب سے آسان کام کسی جلسہ میں اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔کیونکہ پھر کون جا کر اس سے پوچھ سکتا ہے کہ حضور وہ منصوبےبن گئےیا نہیں؟ موجودہ حکومت کو دیکھ لیں کہ آج تقریباً ڈھائی سال میں عوام کی فلاح کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ کوئی ایسا کام نہیں ہوا جس کا براہِ راست عام آدمی کوکسی بھی طرح کا کوئی فائدہ پہنچا ہو یا اس کی مشکلات میں کوئی آسانی پیدا ہو ئی ہو یا کوئی کمی آئی ہو۔ آپ تو شاید یقین کر لیں لیکن حکمرانوں اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے معزز سیاست دانوں کو بھی یقین کر لینا چاہئے کہ عام آدمی کو اب اس میں نہ کوئی دلچسپی ہے نہ تعلق کہ اس وقت کس کی حکومت ہے یا کس کی ہونی چاہئے، نہ ہی اس کو اس سے کوئی غرض ہے کہ ملک میں کونسا نظام ہے یا کونسا نظام ہونا چاہئے۔ عام آدمی کو صرف روزمرہ استعمال کی اشیاء اجناس ،سستی ادویات،سستا اور فوری علاج، امن و امان ،عزتِ نفس، جان و مال کا تحفظ اور سستا و فوری انصاف چاہئے۔ باعزت روزگار چاہئے جس میں وہ دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ کما سکے اور بچوں کو کھلا سکے۔ بچوں کوبہترین تعلیم دے سکے۔ یہ نکات جس کو سمجھ آ گئے جس نے ان کو حل کیا، عام آدمی چاہے گا کہ وہ تاحیات حکمران اور شاد رہے۔ ورنہ سیاست دان یہ بھی سمجھ لیں کہ اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس پاکستان کی خیر ہو۔

ایک گزارش یہ ہے کہ حکمران ملک کا دفاع کرنے والوں کے نام پر اقتدار کے دوام کی کوششوں میں مصروف ہیں، یہ سراسر ناقابلِ فہم ہے، اپنی ناکامیوں کو ان کے سائے میںچھپانے کی کوشش ان اداروں کے وقار اور قوم کے دلوں میں ان کیلئے محبت مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے گریز کرنا چاہئے۔ اور اپوزیشن والے بھی ان پر الزامات نہ لگائیں بلکہ اپنی لڑائی خود لڑیں۔ یہ کسی بھی طرح ملک کی خیر خواہی نہیں کہ ملک کا دفاع کرنے والوں اور قربانیاں دینے والوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا شروع کیا جائے۔ یہ تو دشمن کی مشکل کو آسان بنانے والا کام ہے۔ خدارا ! یہ روش ترک کردیں۔ اس کا نتیجہ کسی کیلئے اچھا نہ ہو گا۔

تازہ ترین