• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان خطا کا پتلا ہے۔ چھوٹی چھوٹی انسانی خطائیں بڑے بڑے سانحات کو جنم دیتی ہیں لیکن بعض اوقات یہ سانحے قوموں کو متحد کر دیتے ہیں۔ لاہور میں اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان زخمی کیا ہوئے پوری قوم زخمی ہو گئی۔ پوری دنیا نے عمران خان کو اپنے چار محافظوں کے ہمراہ اسٹیج کی طرف جانے والی لفٹ سے سر کے بل نیچے گرتے دیکھا۔ پھر ٹیلی ویژن اسکرینوں پر سب نے دیکھا کہ عمران خان کے سر سے خون جاری تھا اور انہیں اٹھا کر اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ ان مناظر کو دیکھ کر کئی لوگ سکتے میں چلے گئے۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ عمران خان لفٹ سے گرے لیکن پورا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سب ہاتھ ان کے لئے دعاؤں کی خاطر اٹھ گئے۔ جس وقت یہ حادثہ ہوا نواز شریف راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ انہیں حادثے کی خبر ملی تو انہوں نے جلسے میں عمران خان کی صحت یابی کے لئے خود دعا کرائی اور پھر ایک دن کیلئے اپنی انتخابی مہم کو ملتوی کر دیا۔ نواز شریف کی ہدایت پر شہباز شریف اپنے سیاسی حریف عمران خان کی عیادت کے لئے اسپتال پہنچ گئے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی عمران خان کی صحت یابی کیلئے دعا کی اور جلسوں سے اپنا خطاب ملتوی کر دیا۔ وہ سیاستدان جو سات مئی کی شام تک ایک دوسرے پر سخت تنقید کر رہے تھے عمران خان کے ساتھ حادثہ پیش آنے کے بعد انہی سیاستدانوں نے رواداری کی ایک نئی مثال قائم کی ۔ہمیشہ کی طرح اس حادثے کے بعد بھی عمران خان نے مثالی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ 1992ء میں جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ کے فائنل میں کوالیفائی کیا تو ان کا کندھا زخمی تھا لیکن انہوں نے اپنے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فائنل میں باؤلنگ جاری رکھی اور پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ سات مئی کے حادثے کے بعد بھی عمران خان نے اپنے ہوش و ہواس کو قائم رکھا۔ اسپتال پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنے آئندہ جلسوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ زخمی حالت میں بھی جلسو ں سے خطاب کر سکتے ہیں لیکن شاید انہیں کمر میں لگنے والی چوٹ کی شدت کا احساس نہ تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں سختی کے ساتھ کہا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں نہیں جا سکتے۔ ڈاکٹروں کی ہدایت کے بعد عمران خان نے اسپتال میں بستر پر لیٹے لیٹے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کرایا اور پاکستانیوں سے کہا کہ گیارہ مئی کو ووٹ ڈال کر اپنی ذمہ داری ادا کریں۔
ایک طرف زخمی عمران خان نے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا دوسری طرف نواز شریف سمیت عمران کے دیگر سیاسی مخالفین نے رواداری اور انسان دوستی کا مظاہرہ کیا۔ یہی ایک نیا پاکستان ہے جس میں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی نہیں بنایا گیا۔ گیارہ مئی کو کوئی جیتے گا کوئی ہارے گا لیکن اس سیاسی ہار جیت کو زندگی موت کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ گیارہ مئی کے دن ہم بہت سے سرپرائز دیکھیں گے لیکن یہ مت سمجھئے گا کہ کوئی انقلاب آنے والا ہے۔ گیارہ مئی کا دن ایک ایسی تبدیلی کے عمل کو مزید تیز کر دے گا جو کافی پہلے شروع ہو چکی ہے۔ یہ تبدیلی لوگوں کی سوچ میں نظر آ رہی ہے۔ سوچ میں یہ تبدیلی ہی اصل سرپرائز ہے۔ اس تبدیلی کا تعلق گیارہ مئی کو کسی کی ہار جیت سے نہیں ہے بلکہ اس تبدیلی کا تعلق انسانی ہمت اور جذبے سے ہے۔ مجھے یہ تبدیلی باجوڑ میں نظر آئی جہاں قبائلی علاقے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون بادام زری قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ بادام زری سے ملاقات میں پتہ چلا کہ ان کے خاوند ایک اسکول ٹیچر ہیں اور انہوں نے اپنے خاوند کی حوصلہ افزائی پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ہو سکتا ہے کہ بادام زری گیارہ مئی کو کامیاب نہ ہو لیکن ان کی ناکامی قبائلی علاقے کی عورتوں کی سوچ میں تبدیلی کی ناکامی نہیں ہو گی۔ وہ خود زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں لیکن سیاسی شعور سے مالامال ہیں اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ قبائلی علاقے کی عورتوں میں سیاسی شعور بڑھے گا کم نہیں ہو گا ۔ ایک اور سر پرائز مجھے پچھلے دنوں لاڑکانہ میں ملا۔ میں لاڑکانہ کے پاکستان چوک میں عام لوگوں سے باتیں کر رہا تھا۔ یہاں مجھے کئی نوجوانوں نے بتایا کہ وہ نواز شریف اور عمران خان کو ووٹ دیں گے۔ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے حامیوں کی اکثریت تھی لیکن کچھ نوجوانوں کی طرف سے لاہور کے دو سیاستدانوں کیلئے اظہار پسندیدگی ایک سرپرائز تھا۔ یہ سرپرائز بتا رہا تھا کہ ہماری نئی نسل صوبائی، لسانی اور رنگ و نسل کے تعصبات سے آزاد ہو رہی ہے۔
اگر لاڑکانہ کے سیاستدانوں کو لاہور سے ووٹ مل سکتے ہیں تو اب لاہور کے سیاستدانوں کو لاڑکانہ سے ووٹ ملیں گے۔ ضروری نہیں کہ نواز شریف اور عمران خان لاڑکانہ میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کریں لیکن لاہور اور لاڑکانہ کے فرق کا خاتمہ میرے لئے روشنی کی ایک کرن ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کی تصاویر والے پوسٹروں اور بینروں کا لاڑکانہ کی دیواروں پر نظر آنا ایک نئے پاکستان کی نوید ہے۔ کیا یہ ایک تبدیلی نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار صرف کراچی اور حیدر آباد سے نہیں بلکہ سندھ سمیت پاکستان کے کئی اہم شہروں سے گیارہ مئی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟ خانیوال کے قریب جہانیاں منڈی جیسے دیہاتی علاقے میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 219 میں ایم کیو ایم کے امیدوار افتخار رندھاوا مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کرم داد واہلہ کیلئے بڑا چیلنج بن گئے ہیں کیونکہ دونوں کا تعلق جٹ برادری سے ہے۔ افتخار رندھاوا ایم کیو ایم کے پرانے کارکن اور مرکزی رابطہ کمیٹی کے ممبر ہیں اسی لئے الطاف حسین نے جہانیاں منڈی میں ان کے ایک جلسے سے ٹیلیفون پر خطاب بھی کیا۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کا انتخابی مہم چلانا اور پنجاب کے دیہاتوں میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کے جلسے پاکستان کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اب تو اے این پی نے بھی پنجاب کے کچھ حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کا وفاقی سیاست کرنا پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنائے گا۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ 2013ء کے انتخابات سے پہلے بہت خونریزی ہوئی ہے۔ طالبان اور طاہرالقادری جیسے عناصر نے ان انتخابات کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دونوں ناکام ہو چکے ہیں۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں کوئی بھی جیتے کوئی بھی ہارے لیکن انتخابات کا انعقاد پوری قوم کی کامیابی ہو گی۔ گیارہ مئی کو کوئی جماعت کلین سویپ نہیں کرے گی کیونکہ کسی جماعت نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ اگر سب نشستوں پر امیدوار ہی موجود نہیں تو کلین سویپ بھی نہیں ہو گا۔ بہت سے نوجوان گیارہ مئی کو اپنی اپنی پسند کی جماعت کی کامیابی کو تبدیلی اور انقلاب قرار دے رہے ہیں۔ نوجوانوں سے بار بار گزارش ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ گیارہ مئی کو پاکستان جیتے گا اور پاکستان کے دشمن ہاریں گے۔ وہ دہشت گرد جنہوں نے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں مختلف سیاسی جماعتوں پر حملے کر کے انتخابات منسوخ کرانے کی کوشش کی وہ صرف چند جماعتوں کے نہیں بلکہ ہر جمہوریت پسند کے دشمن ہیں۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے ایک دوسرے کے خلاف بم دھماکے نہیں کرتے۔ عمران خان زخمی ہو جائے تو نواز شریف ان کی صحت یابی کیلئے دعا کراتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا حسن ہے اور یہ کمزور جمہوریت گیارہ مئی سے قبل ہی دہشت گردوں کو شکست دے چکی ہے۔ پاکستان جیت چکا ہے آپ سب کو مبارک ہو۔
تازہ ترین